فتنہ وفساد کی اصل بنیاد
حضرت مصلح الامت شاہ وصی اللہ نور اللہ مرقدہ سے وابستہ متوسلین ومتعلقین یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ حضرت اقدسؒباہمی فتنہ وفسا سےکس حد تک گریزا ں رہتے تھے۔وہی فتنہ وفسادجس کو سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اَلْحَالِقَہْ (یعنی دین کو مونڈ دینے والی) سے تعبیر کیا ہے، اسی لئے آپ کے وعظ وارشاد کی مجالس میں وقفہ وقفہ سے نفاق، فساد ونزاع کے موضوع پر صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے۔
اسی فساد ونفاق اوربداخلاقی کی بناپر ہجرت کی راہ اختیار کی۔ وطن عزیز کوترک کیا، نیا تعمیر شدہ مکان، مسجد، مدرسہ وخانقاہ کوحیرت انگیز طور پر الوداع کہا دنیا جانتی ہے بلکہ یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ وطن اور آبائی آثاروباقیات سے دستبردار ہونا آسان نہیں ہوتا، مگر بایں ہمہ یہ بات ہوکر رہی اوربالآخر مصلح الامتؒ کے اس فیصلے میں اللہ رب العز ت کی مخفی حکمتیں روز روشن کی طرح واضح ہو گئیں جہاں ظاہر بیں نگاہیں وقتی طور پر نہیں پہنچتیں ہیں ۔
دارالعلوم دیوبند کی مقدس فضا میں فسادوشورش کے دوران حکیم الاسلام قاری محمد طیب رحمہ اللہ کے مکتوب گرامی کے جواب میں نفسانیت پر مبنی اٹھنے اور اٹھائے جانے والے فسادات پرحضرت مصلح الامت رحمۃ اللہ علیہ نے کتنی موثر تنبیہ فرمائی ہے۔ اور در پردہ ان اسباب وعوامل کی نشاندہی فرمائی ہے جس سے باہمی فتنہ وفساد برپا ہوتا ہے ۔ طویل جواب کے اہم اقتباسات ناظرین کے سامنےپیش خدمت ہیں جو عوام ،علماء، طلباءاور ارباب مدارس کے لئے یکساں طور پر چشم کشا اور حددرجہ مفید ہیں۔ کاش کہ ان قیمتی جواہر پاروں سے ہماری آنکھیں کھلیں اور ہم اپنے اعمال واحوال کامخلصانہ احتساب کریں۔ وَفَّقَنَا اللہُ اِیَّانَا وَاِیَّاکُمْ ۔ فرماتے ہیں:
’’پس جو حالات آپ نے لکھے ہیں یہ ہلاکت ہی ہے۔ اور اس کا منشاء فرق مراتب کا نہ کرنا اور طبیعتوں میں خود سری کا پیدا ہوجانا ہے۔ یہی اس وقت دیکھ رہا ہوں کہ نہ کوئی بڑا اس زمانہ میں بڑا رہ گیا ہے، اور نہ کوئی چھوٹا چھوٹا۔ بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ سب بڑے درآنحالیکہ بڑے ہیں چھوٹے ہوگئے ہیںاور ہر چھوٹا درآنحالیکہ چھوٹا ہے بڑا ہوگیا ہے۔ اب اس سے بڑھ کر ہلاکت اور کیا ہوسکتی ہے۔ اور اس سے زیادہ فساد اور کیا ہوگا اور اس فساد کی جڑیہی ہے کہ علم اور اہل علم کے حقوق کا ضیاع ہورہا ہے۔ اسی لئے بزرگوں نے ہر زمانہ میں اس پر تنبیہ فرمائی ہے اور اس کا خاص اہتمام رکھا ہے۔ چنانچہ حضرت سیدنا رفاعیؒ بطور نصیحت کے فرماتے ہیں کہ:شان علم کی ایسی تعظیم کرو کہ اس کے واجبی حقوق ادا ہوتے رہیں‘‘۔
حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحبؒ نے اپنی کتاب اشاعت اسلام میں ایک موقعہ پر تحریر فرمایا ہے۔ ارشاد فرماتے ہیں کہ :شریعت اسلام میں دونوں پہلؤوں (یعنی اشتراک اور امتیاز ) کو اعتدال سے سنبھالا۔ ہر ایک کی حد مقرر کر دی، ہر ایک کے احکام بتادیئے۔ اشتراک کے پہلو کا اس حد تک لحاظ کیا کہ کسی موقعہ پر اس کو نظر انداز نہیں کیا اور امتیاز کو بقائے نظام عالم وترتیب احکام آخرت کے لازم وواجب قرار دیا۔ اور اس بنا پر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:لن یزال الناس بخیر ما بتاینوفاذا تسادو اھلکوا۔
یعنی لوگ ہمیشہ خیر کے ساتھ رہیں گے، جب تک ان میں فرق مراتب قائم رہے گا، اور جب سب لوگ برابر ہوجائیں گے تو ہلاک ہوجائیں گے۔ یہ ارشاد بالکل فطرت کے موافق ہے ۔ انتہیٰ‘‘
(اشاعت اسلام صفحہ ۴۶۸)
پھر اس کے ذرا آگے فرماتے ہیں کہ ایک عربی شاعر نے یوں کہا ہے ؎
لا یصلح الناس فوضیٰ لاسراۃ لھم
ولاسراۃاذا جہالھم سادوا
یعنی مخلوق جب کہ مساوی درجہ خودسر ہو کوئی ا ن کا افسر نہ ہو کبھی ان کی حالت درست نہیں ہوسکتی اور اگر کسی جاہل کو سردار بنا دے تو وہ حقیقتاً نہ ہونے کے حکم میں ہے۔
میں کہتا ہوں کہ اختلاف اور نزاع تو سردار اور امیر ہونے کے بعد بھی ہوگا مگر وہ افسر اس کو ختم کر دیتا ہے۔ اور اگر کوئی افسر نہیں ہوتا تو وہ بجائے ختم ہونے کے بڑھتے چلتے جاتے ہیں۔