قرآن کریم کی تلاوت ہمارے اسلاف واکابر کے معمولات میں سرفہرست تھی۔ بلکہ ماضی قریب میں عام طور پر دیندار گھرانوں اور عام مسلمانوں کے گھروں سے صبح کے وقت تلاوت کی آواز آتی تھی، پھر گردش لیل ونہار سے وقت نے کروٹ لی، حالات بدلے اور اسلامی گھرانوں کی قدروتہذیب ایسی بدلی کہ اب ان محلوں کے مکانوں، روشندانوں اورکھڑکیوں سے وہ مبارک آواز نہیں آتی یا خاموشی وسناٹا طاری رہتا ہے یا پھر کوئی دوسری آواز سنائی دیتی ہے،کیا کروںاپنے درد وکرب کا اظہار اس طرح کر سکتاہوں کہ ؎
بوئے گل ویرانیوں سے پوچھتی تھی یہ
اس کا مہکاہوا ایک چمن تھا وہ کیا ہوا
میں نے ایسے ہی گھرانہ وماحول میں آنکھ کھولی جہاں قرآن کی خوشبو ومشکبو فضا وہوااوردرودیوارمیں پھیلی ہوئی تھی۔ مصلح الامت شاہ وصی اللہ رحمہ اللہ کو قرآن، وتلاوتِ قرآن سے گہرا ربط وتعلق تھا۔ رمضان المبارک کے علاوہ عام دنوں میں بھی بکثرت تلاوت کرتے تھے، آپ ان کی مقدارِ تلاوت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ والد ماجد مرحوم (حضرت مولاناقاری محمد مبین صاحب ؒ) سے صبح کے معمولات ،اوراد وظائف کی تکمیل وناشتہ سے فراغت کے بعد حضرت والاؒ تقریبا صبح کے ۱۱بجےقریب اکثر فرماتے تھے کہ ’مبین میرا ایک ہوگیا‘۔ یعنی ایک قرآن مکمل ہوگیا۔ اس معمول سے ان کی مقدار تلاوت، شوقِ تلاوت وشغف قرآن کا اندازہ کیجئےکہ قرآن کا کتنا دور مکمل کرتے تھے۔ اسی عطا کردہ وقت وزمان میں جو اللہ رب العزت نے ہر ایک کو میسر فرمایا ہے۔ بقول اقبالؒ ؎
ہے دونوں کی پرواز اسی ایک فضا میں
شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور
مولانا عبدالرحمن بیخودؔ فاروقی مبارکپوری رحمہ اللہ نے حضرت اقدسؒ کے تلاوت قرآن کی چشم دید منظر کشی کتنے مؤثر انداز میں کی ہے، فرماتے ہیں کہ حضرت مصلح الامتؒ’’ رات کو چین کی نیند بھی نہ سوتے، ایک بار نیند سے بیدار ہوئے یہ غلام قریب حاضر تھا، فرمایا : ؎
کباب سیخ ہیں ہم کروٹیں ہر سو بدلتے ہیں
جو جل اٹھتا ہے یہ پہلو تو وہ پہلو بدلتے ہیں
بستر پر لیٹتے بھی تو مضطرب حالت میں جیسے کوئی مسافر اسٹیشن پر ٹرین کے انتظار میں چوکنا ہوکر سوتا ہے۔ ہر پانچ سات منٹ کے بعد کروٹیں بدلتے اور آیات قرآنی کی تلاوت کرتے ہوئے محوخواب ہوتے۔ مطمئن ہوکر استراحت کرتے میں نے کبھی نہ پایا‘‘۔
خود میرے گرامی قدر والد ماجدؒ کو قرآن اورتلاوتِ قرآن سے والہانہ ربط ورشتہ تھا، ماہ وسال کے عام ایام بالخصوص رمضان المبارک میں مبالغہ نہ ہوگا اگر یہ کہاجائے کہ رمضان میں قرآ ن تھا اور وہ تھے، تیسری کوئی چیز ان کے اس روحانی رشتہ میں حائل نہ تھی۔ بقول میر ؎
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
باقی آئندہ