خلوت وتنہائی

باسمہٖ تعالیٰ

حالات اب بیان کرنیکی ضرورت نہیں ہے اس عالمی وبائی بحران نے تو شاہ وگدا، امیر وغریب سب کو محصور ومقید کر کے رکھ دیا۔ سب ہی اپنے اپنے گھروں میں محدود ومقید ہیں، امیروں کے محلات میں نقل وحرکت کی جو پابندیاں ہیں، خستہ مکانات کے مکیں (رہنے والے) ان ہی احکامات کے پابند ہیں، اگر ترقی یافتہ ملکوں کی شاہرا ہیں ویران وسنسان ہیں تو پسماندہ ملکوں کی تنگ وتاریک گلیوں میں بھی اتنا ہی سناٹا ہے، آج محمودؔ وایازؔ ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے، بے کسی اور بے بسی کے اس معیار ومرحلہ پر سب یکساں نظر آتے ہیں، برطانیہ کا وزیر اعظم ہویا کسی شہر یا بستی کا ایک مسکین وغریب ، اس طرح یک گونہ سامان تسلی بھی ہے کہ ؎
ہم ہوئے تم ہوئے کہ مِیرؔ ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
یہ ہے قدرت کا کرشمہ اور یہ ہے اس کے عظمت وکبریائی جلال وجبروت کی کارفرمائی۔
کیا عجب کہ اس کے پس پردہ یہ حکمت بھی ہو کہ اس عالم وجود میں اللہ کی مرضی کے خلاف جو بھی ہورہا ہے اس کے پر خطر انجام سے عالم انسانیت کو آگاہ کر دیا جائے کہ عذاب الٰہی کے خوف سے اس کے دل ودماغ میں ہلچل مچ جائے۔
اس روئے زمین پر کسی اور کی کبریائی برقرار نہ رہے اوربساط ارض پر صرف اللہ وحدہ لاشریک کی بڑائی رہ جائے۔وَیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلٰلِ وَ الْاِكْرَامِ۠
اہل ایمان وحاملین قرآن اس ساکت وصامت فضامیںاگر کان لگاکر بغور سنیں تو اس مقدس کتاب کے اوراق سے یہ پیہم آواز آرہی ہے۔يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللّهِ ۖ وَاللّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ (15) إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ (16) وَمَا ذٰلِكَ عَلَى اللّهِ بِعَزِيزٍ۔(سورہ فاطر:۱۵تا۱۷)
ترجمہ:اے لوگو! تم سب اللہ کے محتاج ہو، اور اللہ بے نیاز اور خوبیوں والاہے، اور اگر وہ چاہے تو تم سب کو نیست ونابود کردے، اور ایک نئی مخلوق لاکھڑا کر دے، یہ اللہ کیلئے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
باری تعالیٰ کی حکمت بالغہ کا کیا کہنا، غور فرمائیے کہ اس وبائے عام کا موثر علاج وتدبیرآئی سولیشن(Isolation)خلوت وتنہائی، تجویز کی گئی ہے، یہ خلوت اللہ کے مومن وصالح بندوں کا سرمایۂ نشاط وحیات ہے، اس خلوت وتنہائی سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیئے، اس خلوت میں اللہ تعالیٰ کا قرب نصیب ہوتا ہے، معیت الٰہی کا احساس ہوتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آغاز نبوت کے ایام میں تنہائی محبوب ہوگئی تھی۔ وَکَانَ حُبِّبَ اِلَیْہِ الخَلَاءکےالفاظ سیرت وروایت میں آتے ہیں۔
اولیاء اللہ صلحائے امت نے تو اس خلوت کی تنہائی کی تمنا کی ہے، کیسی وحشت اور کہاں کی وحشت؟ زاویۂ فکر ونظر بدلیئے تو یہ کائنات بدلی نظر آئے گی۔ شاعر مشرقؔعلامہ اقبالؒ عالم تنہائی میں تنہائی پرہم سب سے مخاطب ہیں۔ ؎
تنہائی شب میںہے حزیں کیا؟

انجم نہیں تیرے ہم نشیں کیا؟
یہ رفعت آسمان خاموش

خوابیدہ زمیں جہانِ خاموش
یہ چاند ، یہ دشت ودر، یہ کہسار

فطرت ہے تمام نسترن زار
موتی خوش رنگ پیارے پیارے

یعنی تیرے آنسوؤں کے تارے
کس شئے کی تجھے ہوس ہے اے دل

قدرت تیری ہم نفس ہے اے دل
شاعر اپنے دل سے مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ تو رات کی تنہائی میں اس قدر رنجیدہ کیوں ہے، اگر اس وقت کوئی غم گسار یا رازدار تیرے پاس نہیں ہے تو کیا ہوا؟ کیا تارے تیرے ہم نشیں نہیں ہیں؟ ذرا آنکھ کھول کر فطر ت کا مطالعہ کر آسمان، زمین بلکہ سارا جہاں خاموش ہے، فطرت کے مناظر دیکھ چاند،ستارے، کوہ، صحرا کس قدر حسین ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ساری فطرت گلشن بن گئی ہے، اور ان سب مناظر فطرت سے بڑھ کر تیرےآنسو حسین ہیں، اگر تو غور سے دیکھے تو یہ آنسو موتیوں سے بھی زیادہ قیمتی ہیں،یہ ساری فطرت تیری ہم دم اور ہم راز ہے تو پھر توکیوں اس قدر افسردہ ہے۔
اللہ رب العزت ہم سب کو اس عالم خلوت میں احتساب، استغفاراور غوروفکر کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

wasiatul.uloom@hotmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *