از نبیرۂ مصلح الامتؒ مولانا احمد متین بن قاری محمد مبین صاحبؒ
باسمہٖ تعالیٰ
آج خون ٹپک پڑنے کے نزدیک ہے دل
حادثات ہوتے رہتے ہیں زندگی ان حادثات وسانحات سے ہوکر گزرتی ہے، مگر جب یہ حادثہ اپنے گھر وصحن میں واقع ہوجائے اور رنج والم کے نشتر سے دل لہو بن جائے تو غالب کے اس شعر کی شرح خود سمجھ میں آجاتی ہے ؎
رگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھرنہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو وہ اگر شرار ہوتا
عالمی وبا کرونا سے کون نا واقف ہے، ان دنوں اس نے جو حشربرپاکر رکھا ہے اس کی تصویر کشی اس قلم سے ناممکن ہے، اگر ممکن ہوتا تو خون دل سے یہ سطریں لکھ لی جاتیں۔سچ پوچھئے تو ’ہر قدم الجھنیں اور ہر نفس زحمتیں‘ جیسی کربناک کیفیتوں سے ہر ایک گھر ہر فردوبشر دوچار ہے۔
سنتے ہیں کہ غم بانٹنے سے ہلکا ہوتا ہے،نفسا نفسی، بے تعلقی وسرد مہری کی اس فضا میں ہم پر گزری درد کی اس کہانی کو سنئےاور غم دل میں شرکت کیجئے۔
میں حسب معمول بعد عشاء اپنے گھر کے کشادہ برآمدہ میں کتاب کی ورق گردانی کر رہا تھا بالائی منزل(پہلے فلور) کی سیڑھیوں سے میری کمسن ومعصوم بھتیجی شفا یہ کہہ کر رونے لگی کہ امی کی آکسیجن کی سطح کم ہو رہی ہے۔ میں سر سے پیر تک لرز گیا میں نے تسلی دی اور ماں کی محبت میں لرزتے آنسوؤں کو دیکھ کر خود بھی اشکبار ہوگیا، شفا کی امی فوزیہ روحی ہیں۔ برادر عزیز مولانا احمد مکین سلمہ مدیر وصیۃ العرفان کی اہلیہ محترمہ۔ یہ اپریل بیس تاریخ کی رات تھی، وہ فوری طور پر بلا تامل کار سے قدرے فاصلہ پر واقع نرسنگ ہوم میں لے گئے، بالآخر ڈاکٹر نے داخل (ایڈمیٹ) کر لیا۔ ادھر کئی روز سے وقفہ وقفہ سے ہلکا بخار آرہا تھا مگر یہ سمجھ کر کہ ہر بار کی طرح اس بار بھی عادت کے مطابق یہ بخار چلا جائے گا، سب سے بڑھ کر قدیم معالج کافی مطمئن تھے کہ خدانخواستہ موت میں سلا دینے والی وبا سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، خیال رہے کہ اس وقت تک اِس وبا نے ہلاکت خیز شدت اختیار نہیں کی تھی۔
رات کتنی بھی بوجھل ہو گزر ہی جاتی ہے، انسان اپنے عزیزوں کے بارے میں ہمیشہ یہی سوچتا ہے کہ شب تاریک بالآخر گریزاں ہوگی جلوہ صبح نمودار ہوگا، اورروشنی کی کرنیں فضا وہوا میں پھیلیںگی، مگر ہماری صبح نمودار ہوئی اور درد والم کا ایک نیا پیغام لیکر آئی۔
ہمارے معالج خصوصی نے ۲۱ ؍اپریل کی صبح یہ کہہ دیا کہ اب کسی بہتر سہولیات والے ہسپتال میں لے جائیے کیونکہ رنگ طبیعت اور دوران تنفس دیکھتے ہوئے اب تشویش کن مراحل آسکتے ہیں، آکسیجن کی سطح یا نظام تنفس میں کافی نشیب وفراز ہے، ہم ناقدر شناس انسانوں کو اللہ رب العزت کی بعض عظیم نعمت کی قدروقیمت کا اس وقت صحیح اندازہ ہوتا ہے جب وہ نعمت قریب بہ زوال یا ختم ہوجاتی ہے، اسی سانس کی بحالی کیلئے آج اس ملک میں کتنا دلگداز عبرت انگیز حشر برپا ہے، رسول اکرمؐ کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی یہ دعا ہمارے غفلت زدہ قلب کو بیدار کرتی ہے، کاش کہ آنکھیں کھل جائیں۔ نعمتوںکے اعتراف اور حمد پر مشتمل طویل دعا کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو۔
وَلَکَ الْحَمْدُ عِنْدَ کُلِّ طَرْفَۃ عَیْنٍ وَتَنَفُّس کُلِّ نَفْسٍ۔
اے اللہ! ہر پلک جھپکتے اور ہر لحظہ وہرآن سانس (اعتدال کیساتھ) لینے پر میں آپ کا ممنون ومشکور ہوں ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ ہم اور آپ نے بھی اس طرح سوچا ہے؟ہادی عالمؐ پربے حدو شمار درود وسلام ہواور اللہ رب العزت کی رحمت بے پایاں کا مسلسل نزول ہو کہ انسانی زندگی کے ہر پہلو پر آپ نے توجہ دلائی ہے اور جذبات تشکر کو ابھارا ہے۔
معالج خصوصی کی ہدایت کے مطابق اہم امید اندیشہ اور خوف کے ملے جلے جذبات کیساتھ بہتر سہولیات والے ہسپتال یا نرسنگ ہوم کی تلاش میں شہرواطراف ِشہر میں نکلے۔ سچ پوچھئے تو ہمیں صورتحال کا صحیح اندازہ نہیں تھا، حالات کی واقعیت اور زمینی حقائق کی مکمل تصویر اس وقت سمجھ میں آئی جب موج خون سرسے گزر گئی دن بھر کی مسلسل تگ ودو، وتلاش بسیار کے بعد بھی یہ تھکا دینے والا دن گزر گیا،ہمیں کسی اسپتال یا نرسنگ میںکوئی بیڈ میسر نہ آئی، ہر امید دم توڑتی گئی، ہر سہارا جواب دے گیا، ہرکوشش رائیگاں گئی،مریضہ یعنی (فوزیہ روحی) کو لئے ہوئے ہم بھائیوں اور مخلص اعزا (بلال احمد رمزی اورسید صادق علی) پر مشتمل یہ شکستہ دل قافلہ مختلف منازل ومراحل سے گزرتا رہا اور بالآخر عالم مایوسی میں رات ۱۰بجے قریب لوٹ کر اپنے گھر آگیا اور پھر ؎
وہی شام وہی رنج وہی تنہائی
اس دوران دہلی منتقل کرنے کی کوشش کی گئی۔ میدانتا ہسپتال ایئرایمبولینس(Air Ambulance) سے لیجانے کی میرے بھانجی د اماد عزیز گرامی قدر سراج احمد سلمہٗ نے بات کر لی مگر آخر میں ڈاکٹر نے یہ کہہ کر مایوس کیا کہ یہاں آنے کے بعد بیڈ کے لئے دودن انتظار کرنا پڑ سکتا ہے اس لئے ہمت نہ ہوئی، یہاں سانس کا ایک ایک لمحہ اورہر ساعت قیمتی تھی۔ متاعِ جان کی حفاظت کے اس جانگسل سفر میں ایک تنہاہمارا خانوادہ نہیں تھا، اس مشترکہ غم اورجد وجہد میں خدا کی ایک کثیر مخلوق دیوانہ وار دوڑرہی تھی وسائل تعلقات، اور مادی سہارے جس طرح اُس دن بے وقعت وپامال ہوتے دیکھا، نوک قلم اظہار سے عاجز ہے، زندگی کا یہ پہلا تجربہ ہے اور خدا کرے آخری ہو، کرب والم کے ان لمحوں میں ذہن ودماغ میںشاندار سہولتوں سے منظم ہسپتال کے بجائے اب خواہش کتنی محدود اورسمٹ کر رہ گئی تھی کہ کاش !کہ ایک بیڈ کہیں میسر ہوجہاں مریض کو لٹادیاجائے، شہر نہ ہوا جنگل وبیاباں کی تپتی ہوئی دھوپ کہ ایک درخت کا سایہ ہی سب سے بڑی نعمت ہے۔
بالآخر رات کی گہری تاریکیوں میں امید کا چراغ جلا اور شہر کے ایک گوشہ میں برادر محترم کے ہم زلف سید صادق علی صاحب کی بے پناہ کوشش وتوسط سے جائے قیام سے دور شاردانامی نرسنگ ہوم میں ایک بیڈ مل گیا، اور اسی رات اسی لمحہ لے جانے کی ہزار زحمتوں کیساتھ مریضہؔ اس نرسنگ ہوم میں منتقل کر دی گئیں، اس پورے سفر میں برادر عزیز کی بڑی لڑکی مازیہ دم بدم قدم بہ قدم ساتھ ساتھ تھی، یہ وضاحت بھی یہیں کر دی جائے کہ محترم بھائی (احمد مکین صاحب) کی دو لڑکیاں ہیں۔ مازیہ احمد، شفا احمداور کمسن لڑکا احمد زعیم ۔
اس نرسنگ ہوم میں بھی گیس سلنڈر، مجوزۃ دوائوں وانجکشن کا جو بحران تھا وہ ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے، ان سب صبر آزما مراحل سے ہم صحت کی امید میں جوش وہمت سے صبر وثبات کیساتھ گزرتے گئے مگر مجھے اعتراف کرنے دیجئے کہ ان معصوم بچوں کے چہرے پر اپنی ماں کی جدائی وفراق کا جو کرب انگیز تاثر اضطراب واندیشہ تھا اسے دیکھ کر دل تو کیا ایک پتھر بھی پگھل جاتا، ان کی اشکبار آنکھیں میرے دل میں تیر نیم کش کی طرح پیوست ہوگئیں۔ اوررہتی زندگی ایک کسک بن کر رہے گی۔میں کیا کہوں؟ اور کس کو غم دل سنائوں کہ ؎
خون ہے کلیوں کا دل اور باد صبا بے چین ہے
بھاگتے دوڑتے جوئے شِیر لاتے، کانٹوں سے الجھتے اس راستہ کے سنگریزوں سے ہمارے پائوں ودل دونوں زخمی ہوگئے، اس رات میں نے بہت قریب سے دیکھا کہ ایک لڑکی اپنی ماں پر پروانہ وار کس طرح نثار ہوتی ہے، اور شمع کیسے ہر رنگ میں سحر ہونے تک جلتی ہے۔ مازیہ اپنی ماں کی خدمت میں کبھی اٹھتی کبھی جھکتی کبھی ان کو اٹھاتی اور وقفہ وقفہ سے بیٹھاتی اور کبھی یہ معصوم فرط محبت سے اپنی ماں کے مقدس چہرہ پر ہاتھ پھیرتی، پھر عالم بے خودی وتحیر میں دست دعا پھیلادیتی، اس کیفیت کیساتھ یہ خدمت ایک دوگھنٹہ نہیں مسلسل تین دن اور تین رات۔ اللہ اللہ! ایک نازک وناتواں جسم میں حیرت انگیز برقی توانائی دینے والے اس بے قرار جذبہ کا نام ماں کی محبت ہے جو اولاد کے دل میں عرش بریں کا مالک ودیعت کر دیتا ہے۔ اللہ کی شان ربوبیت پر قربان کہ انہیں مائوں کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔
حدیث نبویؐ میں ہے:أِلْزَمْ رِجَلَھَا فَثَمَّ الْجَنَّۃ۔ ماں کے قدموں سے چمٹ جائو وہیں جنت ہے، آج یہی جنت نظروں سے اوجھل ہو رہی تھی۔
شاردا نرسنگ ہوم کی ۲۲؍اپریل کی ’شب کُلفت‘ درد واضطراب کی ہر منزل پر لے گئی، کبھی آکسیجن کی کمی موت وزیست میں ایک کشمکش پیدا کرتی اور کبھی اس کی فراہمی ایک مسئلہ بن جاتی اور اور مخصوص انجکشن (ریمڈی سیویر) کا مطالبہ عراق سے ’تریاق‘ لانے کا مترادف تھا۔
پھر اب رہ رہ کر موجودومیسر ڈاکٹروں کی ٹیم یہ کہنے لگی کہ یہاں (شاردا نرسنگ ہوم) سے بہتر سہولت کے حامل معیاری اسپتال لیکر جائیں۔ لیجئے یہ عارضی سہارا بھی ٹوٹ گیا اب جائیں تو کہاں ؎
یہی بیکسی تھی تمام شب اسی بے کسی میں سحر ہوئی
اس فانی دنیا کے عارضی سہاروں اور امداد ومداوا کے سامانوں کا یہی حال ہے جو پل جھپکنے میں ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اس عالم ناپائیدار کی بے ثباتی تغیر وفنائیت کے جو گہرے نقوش ان تلخ وکڑوے ایام میں قلب ودماغ پر ثبت ہوے وہ بہت گہرے ولازوال ہیں، وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ۔
ترجمہ:ہم ان ایام کی الٹ پھیر تو لوگوں کے درمیان کرتے ہی رہتے ہیں ؎
لائی حیات آئے قضالے چلی چلے
نہ اپنی خوشی آئے نہ اپنی خوشی چلے
؍۱۰؍رمضان المبارک ۲۳؍اپریل یوم جمعہ کی صبح شب فرقت ثابت ہوئی، آکسیجن کی سطح گرتی بڑھتی رہی، مسلسل دن کے قیام شب کی بیداری نے دل ودماغ واعصاب کو متاثر کر دیا تھا، بالخصوص برادر عزیز مولانا احمد مکین سلمہٗ شمع کی طرح جلتے اور پگھلتے رہے انہیں صورتحال کا اچھی طرح اندازہ ہوگیا تھا زیر لب ادعیہ ماثورۃ اور مخصوص آیات قرآنی کی تلاوت کا اہتمام تھا اور ’دل بہ یار دست بکار‘ ان جانگسل لمحات میں صبرورضا عزیمت واستقامت کا پیکر بنے ہم سب کو ہمت وروشنی عطا کرتے رہے وہ تصویر غم بنے سب کچھ دیکھتے مگر زبان حرف شکوہ وشکایت سے خاموش رہتی وہ کونسی چیز تھی جو آنعزیز نے قربان نہ کی ہو اپنی خدمت اپنے جذبات، اپنا دن،اپنی رات ، کچھ جذبات وہیجان ایسے بھی ہوتے ہیں جسے کوئی بھی نہیں دیکھتا کیونکہ وہ نہاں خانہ دل میں تہہ نشیں ہوتے ہیں اور سلگتے رہتے ہیں۔ ذرا چشم تصور سے کام لیجئے کہ معصوم بچوںکے تعلق سے محبوب ماں کا خیال پھر اپنی شریک حیات غمخوار ودمساز کے اندیشہ جدائی سے تو جذبات وخیالات میں وہ تلاطم برپا ہوتا ہے کہ نہ دل میں قراررہتا ہے اور نہ آنکھوں پر اختیار مگر کبھی ؎
ساحل سے بھی موجیں اٹھتی ہیں خاموش بھی طوفان ہوتے ہیں
اللہ ان کے مراتب کو بلند سے بلند تر فرمائے اور قلب شکستہ کو قرار وسکینت عطا کرے۔
عزیزہ مازیہ جو ش محبت میں ویسے ہی سرگرم عمل تھی مگر آج ۲۳؍اپریل کی صبح اس کی امّی خاموش تھیں ، ہلکی سی آواز میں اللہ ،اللہ کا ورد زبان پر جاری تھا نہ تکلیف کی شکایت نہ کرب وبے چینی کا اظہار۔
۲۳ تاریخ کی صبح انہی ساعتوں میں پردۂ غیب سے ایک بہتر شکل نمودار ہوئی شہر الہ آباد کے مشہور معالج سرجن میڈیکل اسپتال سے منسلک (ہیڈ آ ف گیسٹرا لوجسٹ)ڈاکٹر شبیہ احمد صاحب کے توسط سے میڈیکل اسپتال کے آئی سی یو وارڈ نمبر ۸ میں ایک بیڈ کا نظم ہوگیا اس وارڈ میں تمام طبی سہولیات موجود تھیں۔ امید کی اس نئی کرن سے ہمارے پژمردہ حوصلے بیدار ہوئے ارادہ وعمل میں حرکت ہوئی۔
اور شاردا نرسنگ ہوم سے میڈیکل ہسپتال کا نازک ترین سفر برادر عزیز محمد امین سلمہٗ، عزیزہ مازیہ وسید صادق علی کی معیت میں ہوا۔محمد میاں لمحہ بہ لمحہ حالات کی خبر دیتے رہےشکستہ لہجہ اور غمزدہ آواز میں ان کی ڈھلتی ہوئی کیفیت کو بتاتے رہے، طبیعت کے اندر نئی تبدیلی اور انکشاف سے ہمیں محسوس ہوا کہ آفتاب اگرچہ نکلا ہوا ہے مگر ہمارے گھر کا آفتاب اب غروب ہونے ولاہے، ان ہمسفروں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ اللہ کا مبارک کلمہ ورد زبان تھااور تشہد کی ہیئت کی طرح انگشت شہادت بار بار آسمان کی جانب اٹھا رہی تھیں، گویا یہ زندگی کی آخری لمحات میں اپنے خالق ومالک کی توحید کا اعلان اور رسالت کا اقرار تھا۔قابل رشک ہے یہ کیفیت اللہ ہم سب کو یہ دولت نصیب کرے۔اوربالآخر جمعہ سے پہلے کسی طرح افتان وخیزاں اپنی ہی کار سے میڈیکل ہسپتال کے گیٹ پر پہنچ گئے مگر قسمت کی خوبی دیکھئے کہ ٹوٹی کہاں کمند بظاہر صحت کی امید میں میڈیکل ہسپتال کا یہ سفر دائمی فرقت وجدائی کا سفر ثابت ہوا۔
ہر ممکن برق رفتاری سے میڈیکل کالج کے آئی سی یو میں داخل کی گئیں وقفہ وقفہ سے ڈاکٹروں کی آمد ورفت اور ان کا لب ولہجہ موت وزیست کی آخری کشمکش کی غمازی کر رہا تھا، فضا افسردہ تھی اور اداس لمحے اب یہ کہہ رہے تھے ؎
غم حیا ت کا جھگڑا مٹارہا ہے کوئی چلے آئو کہ دنیاسے جا رہا ہے کوئی
میری بھتیجی مازیہ اسپتال کے طویل وعریض راہداری میں بے تابانہ سجدہ میں گری گردوپیش سے بے خبر سمت قبلہ سے بے نیاز اپنے رب ومعبود سے اپنی محبوب ماں کیلئے زندگی کی التجا کر رہی تھی، میں وفور جذبات وفرط غم سے تسلی کا ایک چھوٹا سا جملہ بھی کہنے پر قادر نہیں تھا۔ مجھے خود سہارے کی ضرورت تھی مگر وہاں آہ وفغاں غم والم سے بھری فضا وماحول میں کون سہارا دیتا،اِنَّمَا اَشْكُوْا بَثِّیْ وَ حُزْنِیْۤ اِلَى اللّٰهِ اپنے رنج وغم کی شکایت توصرف اپنے اللہ سے کرنی ہے۔
صورت حال کی نزاکت کا علم اہل خانہ کو ہوتا رہا گھر کا ہر فرد تسبیح، مناجات ودعا میں مصروف تھا ۔ بالخصوص بردار عزیزکی کمسن بیٹی شفا اور احمد زعیم کے درد واضطراب وسوز دروں کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، وہ موج بےقرار کی طرح ساحلِ مراد پانے کی آرزو میں کبھی سربسجود ہوتے کبھی اپنی محبوب ماں کی صحت وقوت کی بحالی کیلئے دعا ومناجات میں مصروف ہوجاتے اور ان کے نازک ہاتھوں کی ہتھیلیاں آنسوؤں سے تر ہوجاتیں، دعائیں تمنا کی شکل میں سب اہل خانہ کی ورد زبان تھیں کہ کاش! مدتِ عمر میں کچھ اضافہ ہوجاتا ۔ کاش! نوخیز کلیوں کی کچھ دن اور نگہداشت کر لیتیں۔ کاش! ماں کے مشفقانہ لمس سے بچے ابھی محروم نہ ہوتے۔ کاش! کچھ دن اور محبت وشفقت کی تھپکیاں دے لیتیں اور گھر سے رخصت ہونے والی معصوم بچی کو گلے لگاکر اشک آمیز دعائوں اور دھڑکنوں کے ساتھ رخصت کرتیں۔ مگر ہم غافل انسانوں کی ایسی کتنی تمنائیں حسرتوں کا خاک بنتی ہیں اور آج یہ تمنا بھی خاک بن کر رہی۔ ماں اور بچوں کے فطری محبت وتعلق کا تقاضہ تو یہ ہے ماں جیسی ہستی دوامی شکل وصورت اختیار کر لیتی مگر قضا وقدر کے فیصلہ ومصلحت کے آگے سرتسلیم خم ہے اور کس کو دم مارنے کی مجال ہے۔ ؎
غیر تسلیم ورضا کو چارۂ درکف شیر نر خونخوارۂ
اسی مضطرب فضا وماحول میں جمعہ کے بعد عصر کے قریب آئی سی یو کے ڈاکٹر دبے قدموں آئے اور رحلت کی خبر سناگئے۔ اِنَّاللہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ میرے عزیز بھائی کی شریک حیات اور بچوں کی ماں، گھرانہ کی ہر دلعزیزفوزیہ روحی میڈیکل کے ان راستوں سے ’اللہ‘ کے دربار میں حاضر ہوگئیں۔ ؎
ویران ہے میکدہ خم وساغر اداس ہیں
اسی دوران میرے موبائل کی گھنٹی بجی، دوسری جانب میکس ہسپتال دہلی میں ایڈمیٹ برادر عزیز محمود کریم (عم زاد وخالہ زاد بھائی) تھے، گفتگو ہوئی مگر آج کی بات چیت صرف آنسوؤں سسکیوں سے ہوئی کبھی گفتگو ایسی بھی ہوتی ہے اور آنسوؤں کے یہ قطرے الفاظ وحرف سے کہیں بالاتر پیغام رسانی کا کام انجام دیتے ہیں۔ اس خاموش سیل رواں میں آواز الفاظ ومفہوم قدرتی طور پر پیدا ہوجاتے ہیں۔ اللہ رب العزت آنعزیز کو صحت کاملہ عاجلہ عطا فرمائے۔
رب کائنات کے مضبوط ومحکم نظامِ موت وحیات کے تحت بزم عالم کے چراغ زندگی اسی طرح جلتے بجھتے رہتے ہیں یہ سلسلۂ روز وشب نقش گر حادثات ہے یہاں کا ذرہ ذرہ پابستہ تقدیر اور ہر شئی اور ہر وجود ایک ڈھلتا ہوا سایہ ہے۔ كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ۔وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ’’جومخلوق زمین پر ہے وہ سب ایک دن فنا ہوجائے گی صرف آپ کے رب کی ذات باقی رہے گی۔ جو جلال والااور عظمت والاہے۔‘‘
میڈیکل اسپتال میں واقع موت کے بعد ایک مسئلہ نعش کے گھر پر لانے کا تھا مگر امداد غیبی کہہ لیجئے کہ ایک سے دو گھنٹہ کے درمیان مختلف مراحل آسانی سے طے ہوگئے ، میڈیکل ہسپتال کے بعض فعال عملہ کی کوششوں سے نعش کو براہ راست گھر لے جانے کی اجازت مل گئی اور تھوڑی ہی دیر میں بعض مخصوص کاروائی کے بعد ہم سب فوزیہ روحی کو ایمبولینس میں انہی سڑکوں پر روح زندگی سے محروم جسد خاکی کو گھر لے جانے لگے، جہاں ابھی کچھ دن پہلے وہ زندگی وحیات میں اپنے بال بچوں کیساتھ آتی وجاتی تھیں۔ ابھی گنتی کے چند ایام گزرے ہونگے کہ اپنی لخت جگر کی نومبر میں طے شدہ شادی کی خریدوفروخت میں مصروف تھیں، پھولوں کے چننے میں مصروفِ عمل اس عزیزہ کو کیا معلوم کہ نشاط وبہار کی یہ کلیاں بہت جلدمرجھانے والی ہیں اور انہی راستوں سے بہت جلد اپنے گھر ایسے حال میں پہنچیں گی جہاں ان کے اہل خانہ اور بچوں پر قیامت گزر جائے گی۔
بالآخر میڈیکل اسپتال سے روشن باغ تک یہ صبر آزما ودلگداز سفر طے ہوا، ہماری منزل آگئی یہ بے حدنازک واعصاب شکن وقت تھا، ہم گھر میں داخل ہوئے اور پھر فرط غم وشدت الم سے چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
میں اس مقام پر غم دل کا افسانہ شاخ گل سے توڑے ہوئے پھولوں کی فریاد وزبان میں کرونگا جو’ پھول کی فریاد ‘ نام سے معروف وموسوم ہے۔
جس کی رونق تھا میں بے رونق وہ ڈالی ہوگئی
حیف ہے بچے کی گود ماں سے خالی ہوگئی
تتلیاں بے چین ہونگی جب نہ مجھکو پائیں گی
غم سے بھنورے روئیں گے اور بلبلیں چلائیں گی
میں بھی فانی تو بھی فانی سب ہیں فانی دہر میں
اک قیامت ہے مگر مرگ جوانی دہر میں
بچوں کے تعلق سے غم والم کی شدت دوگنی چہارگنی ہوجاتی ہے، حضرت جعفرؓ کی اہلیہ محترمہ اسماء بنت عمیسؓ فرماتی ہیں کہ میں آٹا گوندھ چکی تھی اور لڑکوں کو نہلا دھلاکر صاف کپڑے پہنا رہی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ جعفرؓ کے بچوں کو لائو میں نے ان کو حاضر خدمت کیا، تو آپﷺ نے آبدیدہ ہوکر ان کو پیار فرمایا، میں نے کہا کہ میرے ماں باپ فدا ہوں، حضور آبدیدہ کیوں ہیں، کیا جعفرؓ اور ان کے ساتھیوں کے متعلق کوئی اطلاع آئی ہے فرمایا ہاں! وہ شہید ہوگئے، یہ سن کر میں چیخنے چلانے لگی، محلہ کی عورتیں میرے ارد گرد جمع ہوگئیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے گئے اور ازواج مطہرات سے فرمایا کہ آل جعفرؓ کا خیال رکھنا آج وہ اپنے ہوش میں نہیں ہیں۔ (مہاجرین :جلد۱،ص۲۰۵)
احمد زعیم معصوم اپنے والد کے سینہ سے چمٹ کر جب یہ کہنے لگا کہ میں اب امی کے بغیر کیسے رہ سکونگا، آپ صبح کی چائے کس کے ساتھ پئیں گے؟ تو ہر دل میں طوفان اٹھااور ہر آنکھ چھلک پڑی، آغوش پدر میں بلکتے ہوئےماں کے سایہ شفقت سے محروم زخم خوردہ اس کمسن بچے کو برادر عزیز نے تسلی دیتے ہوئے جو ایمان افروز کلمات کہے ہیں وہ آب زر سے لکھے جانے کے لائق ہے۔ بیٹے! رسول اکرمﷺ کی والدہ محترمہ بھی دنیا سے رحلت کر گئیں تھیں جب وہ تمہارے ہی طرح نوعمر وکمسن تھے، ہائے! اہل ایمان کے پاس کیا دولت نایاب ہے کہ سرور عالمﷺ کی سیرت کا ہر پہلو اور ہر گوشہ ہم سب کے زخموں کا علاج اور تسکین کا مرہم ہے فصلواعلیہ وآلہٖ
ہم سب کا ارادہ تھا کہ دس بجے شب میں نماز جنازہ کے بعد تدفین کر دی جائیگی مگر اموات کی کثرت کی بنا پر کوئی گورکن قبر کھودنے پر آمادہ نہ ہوابالفاظ دیگر قبرستان کا عملہ کھدائی کے مسلسل عمل سے اتنا تھک چکا تھا کہ زمین پر کدال وپھائوڑا اٹھانے وچلانے کے لائق نہیں رہ گیا تھامگر اللہ کا شکر ہے کہ بعض احباب وبرادران عزیز کی پیہم سعی وکوشش رنگ لائی اورجے سی بی (کھدائی کی مشین) سے ابدی آرام گاہ تیار کی گئی مگر تاخیر کی بنا پر نماز جنازہ بوقت سحر بعد نمازفجر ادا کی گئی، اور پھر انہیں اپنے معروف قبرستان غوث نگرکریلی میں والدین رحمہمااللہ کے پاس ہی سپرد خاک کیا گیا۔ اور باچشم نم وجان شوریدہ لرزتے ہاتھوںمرحومہ کی تربت پر مشت خاک ڈالی گئی، اس طرح ہم سب کا قیمتی سرمایہ، کسی کی محبوب بہن، کسی کی شریک زندگی اور بچوں کے تعلق سے عالم آب وگِل کا سب سے مقدس ومحبوب رشتہ آج پیوند خاک ہوا۔اب ان کو دیکھا تو جا سکتا ہے مگر صرف خواب وعالم تصور کے دریچوں سے۔
مِنْھَا خَلَقْنَاکُمْ وَ فِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً أُخْرٰی’’اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا کیا تھا اسی میں ہم تمہیں واپس لے جائیں گے اسی میں سے تمہیں دوبارہ نکالیں گے، یعنی تو خاک ہے پھر خاک بن جائے گا‘‘آیت کریمہ بارہا سنی وپڑھی گئی ہے مگر آج اس کی عملی تفسیر ومعنوی مطابقت سے دل پر بہت چوٹ لگی۔
عالم غیب سے متعلق رحمت ومغفرت کے بارے میں قطعی فیصلہ تو نہیں کیا جا سکتا مگر آثار وقرائن سے مغفرت ورحمت کی امید کی جاسکتی ہے اور کی جانی چاہیے۔ مرحومہ فرائض ،سنن ونوافل کی پابند اور تلاوت قرآن کی دلدادہ تھیں اور تفسیر قرآن کا مطالعہ قدیم معمول تھا۔ پھر ماہ رمضان المبارک جمعہ کا دن عشرۂ رحمت میں رحلت اور عشرۂ مغفرت میں تدفین یہ ایسی علامات ہیں کہ اللہ کے فضل، مغفرت ورحمت کی عظیم بشارت کی امید تو کی ہی جا سکتی ہے، انشاء اللہ تعالیٰ۔
اللہ رب العزت اشکبار، دل فگار، بے قرار، جذبات میں صبر وسکینت، ودیعت کرے۔ اور استقامت وعزیمت عطا کرے۔ اور مرحومہ کو جنت کی دلفریب وبے نظیر مشکبار فضائوں میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ اور رنجیدہ والم رسیدہ خانوادہ مصلح الامتؒ کوصبر ورضا کی توفیق مرحمت فرمائے۔
داستان درد یہیں ختم نہیں ہوجاتی مرحومہ فوزیہ روحی کی تدفین کے بعد ہم تقریباً ۸بجے اپنے گھر پہنچے افتاد غم کے ایسے اثر انگیز مواقع پر دل ودماغ کی جو کیفیت ہوتی ہے اس سے ہر ایک بخوبی واقف ہے کہ میری عمر ومرتبہ میں سب سے بڑی بہن محترمہ ذکیہ آپا صاحبہ مدظلہا کے یہاں سے بذریعہ موبائل یہ اطلاع آئی کہ میرے بہنوئی محترم عرفان بھائی یعنی (مولانا عرفان احمد صاحب مدظلہٗ) کی طبیعت تشویشناک مرحلہ میں ہے، جلد از جلد آجائو میرا ان سے دہرا رشتہ ہے وہ میرے بہنوئی ہیں اور برادر نسبتی بھی۔
اپنے تازہ زخم وافتاد غم کو فراموش کر کے بغیر کسی توقف کے ہم سب گھر کے لوگ یکے بعد دیگرے ان کی جائے قیام پہ پہنچے، میں اسی خیال میں غلطاں وپیچاں تھا کہ معمول سے زیادہ آج طبیعت خراب ہوگی جلد ہی سنبھل جائیں گے مگر وہاں منظر دلگدازاور صورتحال جانگسل تھی۔
میری عزیزبھانجیاں اپنے ہوش میں نہیں تھیں ہمشیرہ محترمہ فرط غم سے خاموش مجسمہ بنی ہوئی تھیں کچھ اعزااحباب ومخلصین اضطراب وبے چینی میں کمرہ کے اندر موجود تھے ان کا نظام تنفس شدت نشیب وفراز سے تہہ وبالاتھا، بعض مخلصین ان کی دگرگوں کیفیت کو دیکھ کر ان کے پیروں پر سر رکھے زار زار رو رہے تھے آج میرے عرفان بھائی زندگی کے آخری لمحات میں تھے اور وہ تیزی سے عالم بالاکی جانب محوپرواز تھے ۔آج روح جسم کو چھوڑ رہی ہے عالم ناسوت سے رشتہ ٹوٹ رہا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ عظیم وقت آگیا کہ کلمہ طیبہ کے ورد کے دور ان ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ محبت، عشق، دارفتگی اور ہر تعلق ان کو اس دائمی سفر سے روک نہ سکے اور وہ ہمیشہ کیلئے ہم سب سے جدا ہوگئے۔ اِنَّالِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
فریب ہستی کی کہانی بس اتنی ہے کہ جسم سے روح کا رشتہ ٹوٹا آنکھیں بند ہوئیں اور آدمی افسانہ ہوا۔ ؎
روئیے زار زار کیا کیجئے ہائے ہائے کیا
محبت واضطراب اگر کسی کو بچاتے تو صدیق اکبرؓ کی مخلصانہ محبت ان کے محبوب ﷺ کو دائمی حیات عطاکرتی، فاروق اعظمؓ کا بے تابانہ اضطراب موت سے تحفظ فراہم کرتا مگر اس فیصلہ کے سامنے سبھی کے سر جھکے ہیں اور جھکیں گے، اسی لئے ایمان واسلام کے حاملین کو ایسے حوصلہ شکن وقت میں صبر رضا استقامت وعزیمت کی تعلیم وتلقین کی گئی ہے۔ رسول اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے:اِنَّ لِلہِ مَااَخَذَ وَلَہٗ مَااَعْطٰی وَکُلُّ شَیْئٍ عِنْدَہٗ بِأَجَلٍ مُسَمًّی فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْسِبْ۔
ترجمہ:جو کچھ اللہ نے لے لیا وہ اسی کا تھا اور جو دیا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کا ہے اور ہر چیز اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مدت مقررہ تک کیلئے ہے۔ تم صبر کرو اور اجروثواب کی امید رکھو۔
تقریبا پچاس سال بیتے ہوئے عرصہ کے دوران ہم سب اہل خاندان اور مصلح الامتؓ کے متعلقین ومخلصین کے لبوں پر ایک نام محبت وعظمت سے لیا جاتا عرفان بھائی۔۔۔ مولوی عرفان صاحب اور’ مولانا عرفان صاحب‘ سب کے دل میں بسنے والے، سب کے محبوب دلنشیں ومحترم کسی کے مشفق باپ، کسی کے مربی ومعلم بھی، کسی کے بھائی، کسی کے شریک حیات اور سب کے مسیحا وغمگسار اب اس فانی دنیا میں نہیں رہے اس محبوب ہستی کو بھی اسی مٹی کے حوالہ کیا گیا جہاں بزم ہستی کی سب سے معزز ہستی آرام فرما ہے ۔ ؎
اب ڈھونڈھ انہیں چراغ رخ زیبا لیکر
سچ پوچھئے تو شہر الہ آباد، اطراف واکناف میں ایک عظیم خلا پیدا ہوا اور بزم علم و معرفت اخلاق وتقویٰ کی شمع مدھم پڑگئی ان کی خصوصیات ان کے نقوش، ان کی پاکیزہ ادائیں ہمیشہ یاد آتی رہیں گی اور زخم دل کو تازہ اور آتش غم بھڑکاتی رہیں گی۔ ؎
یہ جان کر منجملہ خاصان میخانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ مجھے
رحلت کے فوراً بعد میں اندرونِ خانہ گیا شدت غم وفرط الم سے میرے جملہ اہل خانہ نڈھال بے قرار وبے چین تھے ان کی گریہ وزاری روح کی گہرائیوں میں اتر جانےوالی اور دل کو پارہ پارہ کرنے والی تھی آج ان کی محبت کا آسمان مالک آسمان کے پاس چلا گیا تھا اور رداء شفقت واپس لی جا چکی تھی ان کا دل زخموں سے چور تھا اور آنکھیں سیل اشک بہارہی تھیںکہ ؎
جوئے خوں آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شام فراق
میں یہ سمجھوںگا کہ شمعیں دو فروزاں ہوگئیں
مبالغہ سے خالی یہ ایک حقیقت ہے کہ جملہ اہل خانہ کے جذبات سمندر کے بے تاب موجوں کی طرح تھے، اور کیفیات ایسی تھیں کہ تاریخ میں موجود سیدۂ جنت حضرت فاطمہ الزہراءؓ کے صورت واقعہ کی تصویر سامنے آئی جب وہ اپنے محبوب چچا کی مفارقت پر زار زار روتے ہوئے، واہٗ عمّاہ واہٗ عماہ کہتے ہوئے سرور عالمﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں، آپﷺ نے یہ کیفیت دیکھ کر فرمایا:بے شک جعفر جیسے شخص پر رونے والیوں کو رونا چاہئے، ازواج مطہرات سے فرمایا کہ آل جعفر کا خیال رکھنا، آج وہ اپنے ہوش میں نہیں ہیں۔
آج خانوادۂ مصلح الامتؒ اپنے ہوش میں نہیں تھا اور جس شخصیت پر آج رویا جا رہا تھا وہ رونے کی مستحق تھی، دلوں کے مدوجزر اوراٹھتے ہوئے طوفانوں کو نوک قلم کے ذریعہ کیسے ضبط تحریر میں لایا جا سکتا ہے۔ خانوادۂ وصی اللّٰہی میں پے در پے دہرے افتادِ غم کا دوسرا دلدوز سانحہ اور دوسری تاریخ تھی۔ ایک وہ نازک وقت جب مصلح الامتؒ کی زندگی میں ان کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے داغ مفارقت دے گئیں جس کا تذکرہ مولانا عبدالرحمن بیخود فاروقیؒ نے اس طرح کیا ہے کہ ’’پیرانی صاحبہ کے وصال پر میں نے تعزیت کا خط لکھا شدت غم سے جذبات پر قابو نہ رہا‘‘ جواب میں ارشاد فرمایا کہ ’’دربار الٰہی میں شکوہ ٔ غم شان عبدیت کے منافی ہے، بہت سنبھل کے لکھا کرو ،ہمارا کام صرف صبر کرنا ہے اور بس‘‘۔ الہ آبادمیں دوجوان عمر لڑکیاں چند دنوں میں داغ مفارقت دے گئیں لیکن عندالملاقات جب کلمات غم عرض کئے تو فرمایا کہ وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُکَ اِلَّابِاللہِ۔ الخ۔ ترجمہ:اور آپ صبر کیجئے اور آپ کا صبر تو بس اللہ ہی کی توفیق سے ہے۔ (سورہ نحل پارہ۱۴)
خاندانوں وگھرانوں میں نزول مصائب کے تعلق سے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ناظرین سیدنا یعقوب علیہ السلام کا جگر پاش وایمان افروز مکتوب گرامی ملاحظہ کرتے چلیںجو انہوں نےاپنے نور نظر کو عزیز مصر سمجھ کر لکھا تھا:
منجانب یعقوب صفی اللہ ابن اسحاق ذبیح اللہ ابن ابراہیم خلیل اللہ، بخدمت عزیز مصر
’’امابعد،ہماراپوراخاندان بلائوںاورآزمائشوںمیںمعروف ہے، میرے داد ابراہیم خلیل اللہ کا نمرود کی آگ سے امتحان لیا گیا، پھر میرے والد اسحٰق کا شدید امتحان لیا گیا، پھر میرے ایک لڑکے کے ذریعے میرا امتحان لیا گیا جو مجھ کو سب سے زیادہ محبوب تھا، یہاں تک کہ اس کی مفارقت میں میری بینائی جاتی رہی اس کے بعد اس کا ایک چھوٹا بھائی مجھ غم زدہ کی تسلی کا سامان تھا جس کو آپ نے چوری کے الزام میں گرفتار کر لیا، اور میں بتلاتاہوں کہ ہم اولادِ انبیاء ہیں نہ ہم نے کبھی چوری کی ہے، نہ ہماری اولاد میں کوئی چور پیدا ہوا۔ والسلام۔
یوسف علیہ السلام نے جب یہ خط پڑھا تو کانپ گئے اور بے اختیار رونے لگے، اور اپنے راز کو ظاہر کر دیا۔(بحوالہ معارف القرآن جلد ۵)
ابتلا وآزمائش کے وقت انبیاء واولیاء صالحین وصدیقین کا شعار رہا ہے کہ زخم دل کھاکے خون جگر پی کے صبر واستقامت کا مجسم پیکر بنے لوگوں کو اسی کی تلقین کرتےرہے ہیں تاہم فطری تعلق وجوش محبت سے اشک غم کے قطرات صبر واستقامت کے منافی بھی نہیں ہیں۔ سیدنا یعقوبؑ کی بینائی صدمات کے تسلسل سے جاتی رہی اور خود سرورعالمﷺ کے لب اقدس سے یہ غم آمیز کلمات سنے گئے: اِنَّ الْعَیْنَ تَدْمَعُ وَالْقَلْبُ یَحْزنُ وَلَانَقُوْلُ اِلَّا مَا یَرْضَی رَبُّنَا وَاِنَّابِفِرَاقِکَ یَااِبرَاھِیْمُ لَمَحْزُوْنُوْنَ ۔(بخاری ومسلم) غم فراق سے دل رنجیدہ اور آنکھیں آنسوئوں سے چھلکتی ہیں، اور زبان سے ہم وہی کہیں گے جو اللہ کو پسند ہو اور اے ابراہیم! ہم تمہاری جدائی سے شکستہ خاطر ہیں۔ اللہ رب العزت اس جانگسل روح فرسا وقت وساعت میں اہل خانہ کو صبر جمیل صبروسکینت عطا فرمائے۔
محترم عرفان بھائی مدظلہٗ والد ماجد جانشیں مصلح الامتؒ کے صرف داماد وخویش ہی نہیں بلکہ ان کے مخلص معتمد دست راست وزیر ومشیر کی حیثیت سے رہے۔ ادارہ خانقاہ مدرسہ اوررسالہ وصیۃ العرفان کے مضامین کی ترتیب وتدوین سالہا سال تک جس طرح خاموشی سے انجام دیں، شہرت نام ونمود القاب وآداب سے بالاتر ہوکر جو بے نظیر مخلصانہ فرائض اداکئے وہ ہر ایک مدعی کے بس کا نہیں، ان کی جلیل القدر خدمات بلند وبالاعمارات ومحلات کی ان مضبوط بنیادی پتھروں کی تھیں جو نظروں سے اوجھل ہوکر عمارتوں کے قیام کا بنیادی سبب ہوتی ہیں، سبز وشاداب درختوں کی شادابی کا سارا مدار جڑوں میں سرایت کردہ پانی پر ہوتا ہے مگر یہ آب حیات نظر نہیں آتا، ریاونمائش سے بھری اس دنیا میں اللہ کے کچھ مخصوص بندے ایسے بھی ہوتے ہیں جو سب کچھ کرتے ہیں مگر لب سے کچھ کہتے نہیں ہمارے مرحوم عرفان بھائیؒ بھی انہیں خوش نصیب انسانوں میں سے تھے تمام فرائض کی انجام دہی کے بعد بھی نہ زبان سے خدمات کا تذکرہ کرتے نہ قلم سے اظہار کرتے، خدا کی رضا جوئی کیلئے یہ سب کرنا’ یہ عشق ہے پیارے کھیل نہیںہے‘۔
آج راہ محبت میں اپنی نوجوانی، جوانی، بڑھاپا اور ساری توانائیاں نثار کر کے اپنے جزا دینے والے رب کے پاس پہنچ گئے مگر ان خصوصیات کیساتھ ایسی پاکیزہ اعلیٰ خدمات کی انجام دہی کیلئے یہ فلک بر سوں پھرتا ہے تب خاک کے پردہ سے ایسی شخصیت نمودار ہوتی ہے ۔ ؎
بہت شیشے پگھلتے ہیں تو ایک پیمانہ بنتا ہے
نصف صدی کا عرصہ کچھ کم نہیں ہوتا اس دوران ہندوستان کے مختلف اضلاع کے مختلف صوبوں سے تعلق رکھنے والے طلباء وفارغین مدرسہ وصیۃ العلوم کے دل ودماغ میں علم وعرفان اتباع شریعت کا جو چراغ جلایا اور فارغین فاضلین کی جوایمانی اخلاقی وروحانی تربیت کی وہ انشاء اللہ آخرت کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوگا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عظیم بشارت کے ضرور مستحق ہوں گے۔
نَضَّرَ اللہُ عَبْداً سَمِعَ مَقَالَتِیْ فَحَفِظَہَا وَوَعَاھَا۔ الخ۔
اللہ رب العزت اس بندے کا چہرہ روشن وتاباں کرے جس نے میری بات کو سنا اور یاد کیا اور خوب ذہن نشیں کیا۔ اور اسے لوگوں تک پہنچایا۔ (مشکوٰۃ کتاب العلم)
محترم عرفان بھائی اور اب (رحمہ اللہ) کا خاندان معزز ونمایاں تھا۔ دادھیال ونانھیال دونوں ہی میں علم، مال، وجاہت، وشرافت ہمارے وطن واطراف میں معروف ومشہور تھی۔ قدیم قرابت داری کے علاوہ اس نئی قرابت داری نےہم سب کو یک جان دو قالب کر دیا تھا۔ ایسی قربت کہ زندگی میں ان کے بغیر زندگی وحیات کا تصور نا ممکن تھا۔
اتفاقات بھی عجیب ہوتے ہیں، حالات مصلح الامتؒ کے مصنف(ترجمان مصلح الامت) مولانا عبدالرحمن جامی علیہ الرحمہ محترم عرفان بھائی رحمۃ اللہ علیہ کے محترم نانا صاحب کے متعلق رقم طراز ہیں کہ جناب مولوی حکیم ظہیر الدین صاحب اعظمی حضرت والارحمہ اللہ کے وطن فتح پور سے قریب ہی موضع ندوہ سرائے کے رہنے والے تھے۔ زمانہ ٔ طالب علمی میں حضرت والاؒ کے ہم سبق رہے ہیں۔ تیز وذہین طلبا میں آپ کا شمار تھا۔ چنانچہ حضرت والاؒ فرماتے ہیں کہ ہماری جماعت کو اکثر تکرار حکیم صاحب ہی کراتے تھے۔ فراغت کے بعد طب شروع کر دی، اور علی گڑھ سے فارغ ہوکر وہیں طبیہ کالج میں ملازم ہوگئے۔ اور فن طب کی تعلیم میں مشہور اساتذہ میں سے تھے۔ (حالات مصلح الامتؒ جلد ۱ صفحہ ۹۴)
وقت گزرتا رہا، گردش لیل ونہار کے بعد وہ دن آیا کہ فاضل گرامی محترم مولانا حکیم ظہیر الدین صاحب کے قدیم تعلق نے ایک نئی کروٹ لی اور ان کے فاضل نواسے یعنی مولانا عرفان احمد صاحبؒ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے اور جانشیں مصلح الامتؒ کے سب سے بڑے داماد بنے۔ اور پھر اس چمن ادارہ وخانقاہ کی بے نظیر وعظیم خدمات انجام دیں۔ والد ماجد کے معاون خصوصی بن کر ادارہ، مدرسہ وخانقاہ کو اسی وضع، انداز وطریق پر رکھا جو ہمارے اسلاف وبزرگوں کا مزاج ومنہاج تھا۔ اور یہ بات سب پر عیاں ہے کہ بزرگوں کی باقیات صالحات کی بقا، فروغ وتحفظ کیلئے کتنی قربانیاں دینی پڑتی ہیں، کتنے تلخ وکڑوے گھونٹ پینے پڑتے ہیں۔ تب خاک کے پردوں سے لالہ وگل نمایاں ہوتے ہیں۔ اللہ ان کے قبر اطہر کو نور سرور سے بھر دے۔ ؎
بنا کردند خوش رسمے بخاک وخون غلطیدن
خدا رحمت ایں عاشقانِ پاک طینت را
(ترجمہ:خون وخاک میں تڑپنے کےایک عمدہ رسم کی ان عالی ہمّت انسانوں نے بنیاد ڈالی۔ خدا ان پاک طینت نیک فطرت عاشقوں پر اپنی بے پایاں رحمت نازل کرے)۔
ان کے موقر ومحترم سمدھی پروفیسر محمد اعظم قاسمی صاحب (خلف الرشید حکیم الاسلام قاری محمد طیب رحمہ اللہ) نے اپنے تعزیتی مکتوب میں محترم مرحوم عرفان بھائی کی شخصیت کی دل آویز ترجمانی کی ہے۔ رقم طراز ہیں کہ عرفان بھائی کا اس دار فانی سے رخصت ہوجانا کوئی عام سانحہ نہیں ہے۔ اللہ والے اور اللہ کے ایسے بندے جن کی صورت دیکھ کر خدا یاد آئے وہ زمین وآسمان میں اللہ کے نمائندے اور ترجمان ہوتے ہیں۔ اور ان کے اس دنیا سے جانے پر ایک ایسا خلا پیدا ہوجاتا ہے جس کو بھرنے کیلئے ایک ز مانہ چاہئے۔ اور ایک وسیع حلقہ میں مایوسی اور محرومی کا احساس پیدا ہوجاتا ہے۔ ؎
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
سفر آخرت وتدفین:ادھر سالہا سال سے وہ مختلف گوناگوں امراض کے شکار تھے، مگر اپنی فطری ہمت شجاعت اور ایمانی قوت سے اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ چہرہ پر وہی شگفتگی تازگی ورعنائی، گفتگو میں وہی سلاست وحلاوت۔ مولانا عرفان الحق صاحب ساکن فتوحہ نے صحیح تصویر کشی کی ہے کہ حسن خدا داد کیساتھ ذکر اللہ کی نورانیت چہرے سے صاف جھلکتی تھی۔ عابد شب زندہ دار اور صاحب نسبت ہونے کے باوجود اخفاء حال میں حددرجہ مبالغہ کرنے کا مزاج تھا مگر ؎
مرد حقانی کی پیشانی کا نور
کب چھپا رہتا ہے پیش ذی شعور
ایک مرتبہ بمبئی کے سفر کے دوران بغل میں بیٹھے ایک غیر مسلم نوجوان نے مجھ سے سرگوشی میں کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ان کے چہرہ پرسوواٹ کا بلب جل رہا ہے۔ اتنا منور چہرہ۔ بقول اقبال ؒ ؎
بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی
موت کا پیغام ہمیشہ خاموشی سے آتا ہے، قضا دبے پائوں آتی ہے کسی فردوبشر کو قطعی علم نہیں۔ تاہم اللہ کے مقرب ومخصوص بندوںکو اپنے آخری سفر کا احساس وانکشاف ہوجاتا ہے۔ ادھر وصال سے چند ماہ قبل ہی وہ اس طرح کے الوداعی جملے مختلف انداز سے مختلف مواقع پر کہنے لگے تھے کہ گویا وہ اپنی ابدی آرام گاہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں۔ ؎
قلندر ہرچہ گوید دیدہ گوید
(ترجمہ:مرد مومن جو بھی کہتا ہے بصیرت کی روشنی میں کہتا ہے)
بالآخر اس گزرے ہوئے ماہ رمضان کے مبارک ایام میں کروناؔ جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوئے اور چند دن کی کشمکش کے بعد ۱۱؍رمضان بروز سنیچر دن میں ساڑھے بجے ہمیشہ کیلئے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ ؎
حیف درچشم زدن صحبت یار آخر شد
(ترجمہ:افسوس کہ پلک جھپکتے ہی یار کی ہم نشینی ختم ہوگئی)
بعد نماز عشاء ابوبکر مسجد میں نماز جنازہ ادا کی گئی۔ نماز جنازہ پڑھانے کی سعادت راقم الحروف کے حصہ میں آئی۔ لرزتے دل، تھرتھراتے جذبات سے تکبیرات اداکی گئیں، ہر تکبیر تیر کی طرح دل میں پیوست ہوئی۔ محبت وعقیدت میں ہزاروں لوگ اپنے کاندھوں پر گہوارہ لے چلے اور کچھ مسافت گاڑی سے طے کی گئی۔ اور پھر وہ وقت بھی آیا جب باچشم نم سپرد خاک کر دیا گیا۔ ؎
رونق دل گئی حاصل دل گیا
انجمن نور کی اور بے نور ہے
تدفین کے بعد دیر تک ان کی قبر پر کھڑا رہا، میں کیسے کہوں کہ میرے دل کی کیفیت کیا تھی۔ بہت سی وارداتِ غم کی کیفیات بیان نہیں کی جاسکتیں دل کی بہت سی چوٹیں جملوں میں ڈھل نہیںپاتیں، بے قرار دل کے اضطراب کو الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا جا سکتا۔ آج ہم سب اہل خانہ کا یہی حال تھا، ایک سوگوار سکوت کے عالم میں اپنے سرمایۂ محبت کو ارحم الرحمین کے حوالہ کر کے بوجھل قدموں کیساتھ اپنے گھر لوٹ آئے۔
ان کی مخصوص ڈائری جو انہوں نے یہ کہہ کر میرے حوالہ کی تھی کہ یہ تمہارے کام آئے گی۔ تدفین کے بعدڈائری کے سرورق ان کی قلم سے لکھے ہوئے یہ دلگداز اشعار یاد آگئے۔ ؎
توغنی از ہردوعالم من فقیر روز محشر عذرہائے من پذیر
ورحسابم راتو بینی ناگزیر ازنگاہ مصطفےٰ پنہاں بگیر
بارالہا! آپ دونوں جہاں سے بے نیاز ہیں اور میں سراپا محتاج ہوں۔ لہٰذا حشر کے دن میرے عذر قبول کر لیجئے اگر آپ میرا حساب لینا ہی ضروری سمجھیں تو از کم حضور اکرمﷺ کی نگاہ سے چھپاکر حساب لیجئے گا۔
اللہ رب العزت کے لامحدود وبے پایاں رحم وکرم کی شان کریمی سے امید ہے کہ یہ ان کی عاجزانہ التجا والتماس رائیگاں نہ جائیگی، اور وہ جنت الفردوس کے اعلیٰ مقام میں ہوں گے، ارحم الراحمین سے اسی عفو، فضل وکرم کی ہمیشہ امید رکھنی چاہئے۔ ؎
آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
قارئین وناظرین سے بصد ادب التماس ہے کہ زخم خوردہ والم رسیدہ ہمشیرہ صاحبہ، غمزدہ ورنجیدہ بھانجیاں اور جملہ پسماندگان کیلئے دل سے دعاکریں کہ اللہ رب العزت صبر، قرار وسکینت عطا فرمائے۔
اخیر میں غم والم سے نڈھال ہم سب پسماندگان نیز ہر صاحب ایمان کو رسول اللہﷺ کا یہ تعزیت نامہ مستحضر رکھنا چاہئے جو حضرت معاذ ؓ کو ان کے صاحبزادے کے انتقال کے وقت لکھا تھا۔ اس مبارک تعزیت نامہ میں ہر صاحب ایمان مرد وعورت کےلئے تعزیت ونصیحت، تسلی وتشفی کا پورا سامان ہے۔ انشاء اللہ العزیز رسول اکرمﷺ کی ان ایمان افروز سطروں سے سکون، صبر وقرار ضرور حاصل ہوگا۔
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ کے رسول محمدﷺ کی طرف سے معاذ بن جبل ؓکے نام ۔
سلام علیک ! میں پہلے تم سے اللہ کی حمد بیان کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ (بعد ازاں) دعا کرتا ہوں کہ اللہ تم کو اس صدمہ پر اجر عظیم دے، اور تمہارے دل کو صبر عطا فرمائے۔ اور ہم کو اور تم کو نعمتوں پر شکر کی توفیق دے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری جانیں اور ہمارے مال او رہمارے اہل وعیال یہ سب اللہ تعالیٰ کے مبارک عطیہ ہیں اور اس کی سپرد کی ہوئی امانت ہیں(اس اصول کے مطابق تمہارا لڑکا بھی تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت تھا)۔ اللہ تعالیٰ نے جب تک چاہا خوشی اور عیش کے ساتھ تم کو اس سے نفع اٹھانے اور جی بہلانے کا موقع دیا اور جب اس کی مشیت ہوئی اپنی اس امانت کو تم سے واپس لے لیا۔ وہ تم کو اس کا بڑا اجر دینے والاہے۔ اللہ کی خاص نوازش اور اس کی رحمت اور اس کی طرف سے ہدایت (کی تم کو بشارت ہے)، اگر تم نے ثواب اور رضاءِالٰہی کی نیت سے صبر کیا۔ پس اے معاذ! صبر کرو اور ایسا نہ ہو کہ جزع وفزع تمہارے قیمتی اجر کو غارت کر دے اور پھر تمہیں ندامت ہو (کہ صدمہ بھی پہنچا اور اجر سے محرومی بھی رہی)۔ یقین رکھو کہ جزع وفزع سے کوئی مرنے والاواپس نہیں آتا اور نہ اس سے رنج وغم دور ہوتا ہے، اور اللہ کی طرف سے جو حکم اترتا ہے وہ ہوکر رہنے والاہے، بلکہ یقینا ہوچکا ہے۔ والسلام۔ ‘‘ (معجم کبیر ومعجم اوسط الطبرانی ، بحوالہ ٔ معارف الحدیث، جلدسوم)
میں اپنے مضمون کا اختتام رسول اللہ ﷺ کی اس مبارک دعا سے کرتا ہوں۔
اَللّٰھُمَّ اِنَّ فَلَانَ بْنِ فُلَانٍ فِی ذِمَّتِکَ وَحَبْلِ جَوَارِکَ فَقِہْ مِنْ فِتْنَۃِ الْقَبْرِ وَعَذَابِ النَّارْ۔ وَاَنْتَ اَھْلُ الْوَفَاءِ وَالْحَقِّ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَہٗ وَارْحَمْہُ اِنَّکَ اَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمَ۔
(ترجمہ:اے اللہ تیرا یہ بندہ فلاں بن فلاں تیری امان میں اور تیری پناہ میں ہے۔ تو اس کو عذاب قبر اور عذاب نار سے بچا۔ تو وعدوں کا وفا کرنے والااور خداوند حق ہے۔ اے اللہ تو اس بندے کی مغفرت فرمادے، اس پر رحمت فرما، تو بڑا بخشنے والااور مہربان ہے)۔ (سنن ابی دائود، سنن ابی ماجہ)
باسمہٖ تعالیٰ
آج خون ٹپک پڑنے کے نزدیک ہے دل
حادثات ہوتے رہتے ہیں زندگی ان حادثات وسانحات سے ہوکر گزرتی ہے، مگر جب یہ حادثہ اپنے گھر وصحن میں واقع ہوجائے اور رنج والم کے نشتر سے دل لہو بن جائے تو غالب کے اس شعر کی شرح خود سمجھ میں آجاتی ہے ؎
رگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھرنہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو وہ اگر شرار ہوتا
عالمی وبا کرونا سے کون نا واقف ہے، ان دنوں اس نے جو حشربرپاکر رکھا ہے اس کی تصویر کشی اس قلم سے ناممکن ہے، اگر ممکن ہوتا تو خون دل سے یہ سطریں لکھ لی جاتیں۔سچ پوچھئے تو ’ہر قدم الجھنیں اور ہر نفس زحمتیں‘ جیسی کربناک کیفیتوں سے ہر ایک گھر ہر فردوبشر دوچار ہے۔
سنتے ہیں کہ غم بانٹنے سے ہلکا ہوتا ہے،نفسا نفسی، بے تعلقی وسرد مہری کی اس فضا میں ہم پر گزری درد کی اس کہانی کو سنئےاور غم دل میں شرکت کیجئے۔
میں حسب معمول بعد عشاء اپنے گھر کے کشادہ برآمدہ میں کتاب کی ورق گردانی کر رہا تھا بالائی منزل(پہلے فلور) کی سیڑھیوں سے میری کمسن ومعصوم بھتیجی شفا یہ کہہ کر رونے لگی کہ امی کی آکسیجن کی سطح کم ہو رہی ہے۔ میں سر سے پیر تک لرز گیا میں نے تسلی دی اور ماں کی محبت میں لرزتے آنسوؤں کو دیکھ کر خود بھی اشکبار ہوگیا، شفا کی امی فوزیہ روحی ہیں۔ برادر عزیز مولانا احمد مکین سلمہ مدیر وصیۃ العرفان کی اہلیہ محترمہ۔ یہ اپریل بیس تاریخ کی رات تھی، وہ فوری طور پر بلا تامل کار سے قدرے فاصلہ پر واقع نرسنگ ہوم میں لے گئے، بالآخر ڈاکٹر نے داخل (ایڈمیٹ) کر لیا۔ ادھر کئی روز سے وقفہ وقفہ سے ہلکا بخار آرہا تھا مگر یہ سمجھ کر کہ ہر بار کی طرح اس بار بھی عادت کے مطابق یہ بخار چلا جائے گا، سب سے بڑھ کر قدیم معالج کافی مطمئن تھے کہ خدانخواستہ موت میں سلا دینے والی وبا سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، خیال رہے کہ اس وقت تک اِس وبا نے ہلاکت خیز شدت اختیار نہیں کی تھی۔
رات کتنی بھی بوجھل ہو گزر ہی جاتی ہے، انسان اپنے عزیزوں کے بارے میں ہمیشہ یہی سوچتا ہے کہ شب تاریک بالآخر گریزاں ہوگی جلوہ صبح نمودار ہوگا، اورروشنی کی کرنیں فضا وہوا میں پھیلیںگی، مگر ہماری صبح نمودار ہوئی اور درد والم کا ایک نیا پیغام لیکر آئی۔
ہمارے معالج خصوصی نے ۲۱ ؍اپریل کی صبح یہ کہہ دیا کہ اب کسی بہتر سہولیات والے ہسپتال میں لے جائیے کیونکہ رنگ طبیعت اور دوران تنفس دیکھتے ہوئے اب تشویش کن مراحل آسکتے ہیں، آکسیجن کی سطح یا نظام تنفس میں کافی نشیب وفراز ہے، ہم ناقدر شناس انسانوں کو اللہ رب العزت کی بعض عظیم نعمت کی قدروقیمت کا اس وقت صحیح اندازہ ہوتا ہے جب وہ نعمت قریب بہ زوال یا ختم ہوجاتی ہے، اسی سانس کی بحالی کیلئے آج اس ملک میں کتنا دلگداز عبرت انگیز حشر برپا ہے، رسول اکرمؐ کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی یہ دعا ہمارے غفلت زدہ قلب کو بیدار کرتی ہے، کاش کہ آنکھیں کھل جائیں۔ نعمتوںکے اعتراف اور حمد پر مشتمل طویل دعا کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو۔
وَلَکَ الْحَمْدُ عِنْدَ کُلِّ طَرْفَۃ عَیْنٍ وَتَنَفُّس کُلِّ نَفْسٍ۔
اے اللہ! ہر پلک جھپکتے اور ہر لحظہ وہرآن سانس (اعتدال کیساتھ) لینے پر میں آپ کا ممنون ومشکور ہوں ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ ہم اور آپ نے بھی اس طرح سوچا ہے؟ہادی عالمؐ پربے حدو شمار درود وسلام ہواور اللہ رب العزت کی رحمت بے پایاں کا مسلسل نزول ہو کہ انسانی زندگی کے ہر پہلو پر آپ نے توجہ دلائی ہے اور جذبات تشکر کو ابھارا ہے۔
معالج خصوصی کی ہدایت کے مطابق اہم امید اندیشہ اور خوف کے ملے جلے جذبات کیساتھ بہتر سہولیات والے ہسپتال یا نرسنگ ہوم کی تلاش میں شہرواطراف ِشہر میں نکلے۔ سچ پوچھئے تو ہمیں صورتحال کا صحیح اندازہ نہیں تھا، حالات کی واقعیت اور زمینی حقائق کی مکمل تصویر اس وقت سمجھ میں آئی جب موج خون سرسے گزر گئی دن بھر کی مسلسل تگ ودو، وتلاش بسیار کے بعد بھی یہ تھکا دینے والا دن گزر گیا،ہمیں کسی اسپتال یا نرسنگ میںکوئی بیڈ میسر نہ آئی، ہر امید دم توڑتی گئی، ہر سہارا جواب دے گیا، ہرکوشش رائیگاں گئی،مریضہ یعنی (فوزیہ روحی) کو لئے ہوئے ہم بھائیوں اور مخلص اعزا (بلال احمد رمزی اورسید صادق علی) پر مشتمل یہ شکستہ دل قافلہ مختلف منازل ومراحل سے گزرتا رہا اور بالآخر عالم مایوسی میں رات ۱۰بجے قریب لوٹ کر اپنے گھر آگیا اور پھر ؎
وہی شام وہی رنج وہی تنہائی
اس دوران دہلی منتقل کرنے کی کوشش کی گئی۔ میدانتا ہسپتال ایئرایمبولینس(Air Ambulance) سے لیجانے کی میرے بھانجی د اماد عزیز گرامی قدر سراج احمد سلمہٗ نے بات کر لی مگر آخر میں ڈاکٹر نے یہ کہہ کر مایوس کیا کہ یہاں آنے کے بعد بیڈ کے لئے دودن انتظار کرنا پڑ سکتا ہے اس لئے ہمت نہ ہوئی، یہاں سانس کا ایک ایک لمحہ اورہر ساعت قیمتی تھی۔ متاعِ جان کی حفاظت کے اس جانگسل سفر میں ایک تنہاہمارا خانوادہ نہیں تھا، اس مشترکہ غم اورجد وجہد میں خدا کی ایک کثیر مخلوق دیوانہ وار دوڑرہی تھی وسائل تعلقات، اور مادی سہارے جس طرح اُس دن بے وقعت وپامال ہوتے دیکھا، نوک قلم اظہار سے عاجز ہے، زندگی کا یہ پہلا تجربہ ہے اور خدا کرے آخری ہو، کرب والم کے ان لمحوں میں ذہن ودماغ میںشاندار سہولتوں سے منظم ہسپتال کے بجائے اب خواہش کتنی محدود اورسمٹ کر رہ گئی تھی کہ کاش !کہ ایک بیڈ کہیں میسر ہوجہاں مریض کو لٹادیاجائے، شہر نہ ہوا جنگل وبیاباں کی تپتی ہوئی دھوپ کہ ایک درخت کا سایہ ہی سب سے بڑی نعمت ہے۔
بالآخر رات کی گہری تاریکیوں میں امید کا چراغ جلا اور شہر کے ایک گوشہ میں برادر محترم کے ہم زلف سید صادق علی صاحب کی بے پناہ کوشش وتوسط سے جائے قیام سے دور شاردانامی نرسنگ ہوم میں ایک بیڈ مل گیا، اور اسی رات اسی لمحہ لے جانے کی ہزار زحمتوں کیساتھ مریضہؔ اس نرسنگ ہوم میں منتقل کر دی گئیں، اس پورے سفر میں برادر عزیز کی بڑی لڑکی مازیہ دم بدم قدم بہ قدم ساتھ ساتھ تھی، یہ وضاحت بھی یہیں کر دی جائے کہ محترم بھائی (احمد مکین صاحب) کی دو لڑکیاں ہیں۔ مازیہ احمد، شفا احمداور کمسن لڑکا احمد زعیم ۔
اس نرسنگ ہوم میں بھی گیس سلنڈر، مجوزۃ دوائوں وانجکشن کا جو بحران تھا وہ ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے، ان سب صبر آزما مراحل سے ہم صحت کی امید میں جوش وہمت سے صبر وثبات کیساتھ گزرتے گئے مگر مجھے اعتراف کرنے دیجئے کہ ان معصوم بچوں کے چہرے پر اپنی ماں کی جدائی وفراق کا جو کرب انگیز تاثر اضطراب واندیشہ تھا اسے دیکھ کر دل تو کیا ایک پتھر بھی پگھل جاتا، ان کی اشکبار آنکھیں میرے دل میں تیر نیم کش کی طرح پیوست ہوگئیں۔ اوررہتی زندگی ایک کسک بن کر رہے گی۔میں کیا کہوں؟ اور کس کو غم دل سنائوں کہ ؎
خون ہے کلیوں کا دل اور باد صبا بے چین ہے
بھاگتے دوڑتے جوئے شِیر لاتے، کانٹوں سے الجھتے اس راستہ کے سنگریزوں سے ہمارے پائوں ودل دونوں زخمی ہوگئے، اس رات میں نے بہت قریب سے دیکھا کہ ایک لڑکی اپنی ماں پر پروانہ وار کس طرح نثار ہوتی ہے، اور شمع کیسے ہر رنگ میں سحر ہونے تک جلتی ہے۔ مازیہ اپنی ماں کی خدمت میں کبھی اٹھتی کبھی جھکتی کبھی ان کو اٹھاتی اور وقفہ وقفہ سے بیٹھاتی اور کبھی یہ معصوم فرط محبت سے اپنی ماں کے مقدس چہرہ پر ہاتھ پھیرتی، پھر عالم بے خودی وتحیر میں دست دعا پھیلادیتی، اس کیفیت کیساتھ یہ خدمت ایک دوگھنٹہ نہیں مسلسل تین دن اور تین رات۔ اللہ اللہ! ایک نازک وناتواں جسم میں حیرت انگیز برقی توانائی دینے والے اس بے قرار جذبہ کا نام ماں کی محبت ہے جو اولاد کے دل میں عرش بریں کا مالک ودیعت کر دیتا ہے۔ اللہ کی شان ربوبیت پر قربان کہ انہیں مائوں کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔
حدیث نبویؐ میں ہے:أِلْزَمْ رِجَلَھَا فَثَمَّ الْجَنَّۃ۔ ماں کے قدموں سے چمٹ جائو وہیں جنت ہے، آج یہی جنت نظروں سے اوجھل ہو رہی تھی۔
شاردا نرسنگ ہوم کی ۲۲؍اپریل کی ’شب کُلفت‘ درد واضطراب کی ہر منزل پر لے گئی، کبھی آکسیجن کی کمی موت وزیست میں ایک کشمکش پیدا کرتی اور کبھی اس کی فراہمی ایک مسئلہ بن جاتی اور اور مخصوص انجکشن (ریمڈی سیویر) کا مطالبہ عراق سے ’تریاق‘ لانے کا مترادف تھا۔
پھر اب رہ رہ کر موجودومیسر ڈاکٹروں کی ٹیم یہ کہنے لگی کہ یہاں (شاردا نرسنگ ہوم) سے بہتر سہولت کے حامل معیاری اسپتال لیکر جائیں۔ لیجئے یہ عارضی سہارا بھی ٹوٹ گیا اب جائیں تو کہاں ؎
یہی بیکسی تھی تمام شب اسی بے کسی میں سحر ہوئی
اس فانی دنیا کے عارضی سہاروں اور امداد ومداوا کے سامانوں کا یہی حال ہے جو پل جھپکنے میں ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اس عالم ناپائیدار کی بے ثباتی تغیر وفنائیت کے جو گہرے نقوش ان تلخ وکڑوے ایام میں قلب ودماغ پر ثبت ہوے وہ بہت گہرے ولازوال ہیں، وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ۔
ترجمہ:ہم ان ایام کی الٹ پھیر تو لوگوں کے درمیان کرتے ہی رہتے ہیں ؎
لائی حیات آئے قضالے چلی چلے
نہ اپنی خوشی آئے نہ اپنی خوشی چلے
؍۱۰؍رمضان المبارک ۲۳؍اپریل یوم جمعہ کی صبح شب فرقت ثابت ہوئی، آکسیجن کی سطح گرتی بڑھتی رہی، مسلسل دن کے قیام شب کی بیداری نے دل ودماغ واعصاب کو متاثر کر دیا تھا، بالخصوص برادر عزیز مولانا احمد مکین سلمہٗ شمع کی طرح جلتے اور پگھلتے رہے انہیں صورتحال کا اچھی طرح اندازہ ہوگیا تھا زیر لب ادعیہ ماثورۃ اور مخصوص آیات قرآنی کی تلاوت کا اہتمام تھا اور ’دل بہ یار دست بکار‘ ان جانگسل لمحات میں صبرورضا عزیمت واستقامت کا پیکر بنے ہم سب کو ہمت وروشنی عطا کرتے رہے وہ تصویر غم بنے سب کچھ دیکھتے مگر زبان حرف شکوہ وشکایت سے خاموش رہتی وہ کونسی چیز تھی جو آنعزیز نے قربان نہ کی ہو اپنی خدمت اپنے جذبات، اپنا دن،اپنی رات ، کچھ جذبات وہیجان ایسے بھی ہوتے ہیں جسے کوئی بھی نہیں دیکھتا کیونکہ وہ نہاں خانہ دل میں تہہ نشیں ہوتے ہیں اور سلگتے رہتے ہیں۔ ذرا چشم تصور سے کام لیجئے کہ معصوم بچوںکے تعلق سے محبوب ماں کا خیال پھر اپنی شریک حیات غمخوار ودمساز کے اندیشہ جدائی سے تو جذبات وخیالات میں وہ تلاطم برپا ہوتا ہے کہ نہ دل میں قراررہتا ہے اور نہ آنکھوں پر اختیار مگر کبھی ؎
ساحل سے بھی موجیں اٹھتی ہیں خاموش بھی طوفان ہوتے ہیں
اللہ ان کے مراتب کو بلند سے بلند تر فرمائے اور قلب شکستہ کو قرار وسکینت عطا کرے۔
عزیزہ مازیہ جو ش محبت میں ویسے ہی سرگرم عمل تھی مگر آج ۲۳؍اپریل کی صبح اس کی امّی خاموش تھیں ، ہلکی سی آواز میں اللہ ،اللہ کا ورد زبان پر جاری تھا نہ تکلیف کی شکایت نہ کرب وبے چینی کا اظہار۔
۲۳ تاریخ کی صبح انہی ساعتوں میں پردۂ غیب سے ایک بہتر شکل نمودار ہوئی شہر الہ آباد کے مشہور معالج سرجن میڈیکل اسپتال سے منسلک (ہیڈ آ ف گیسٹرا لوجسٹ)ڈاکٹر شبیہ احمد صاحب کے توسط سے میڈیکل اسپتال کے آئی سی یو وارڈ نمبر ۸ میں ایک بیڈ کا نظم ہوگیا اس وارڈ میں تمام طبی سہولیات موجود تھیں۔ امید کی اس نئی کرن سے ہمارے پژمردہ حوصلے بیدار ہوئے ارادہ وعمل میں حرکت ہوئی۔
اور شاردا نرسنگ ہوم سے میڈیکل ہسپتال کا نازک ترین سفر برادر عزیز محمد امین سلمہٗ، عزیزہ مازیہ وسید صادق علی کی معیت میں ہوا۔محمد میاں لمحہ بہ لمحہ حالات کی خبر دیتے رہےشکستہ لہجہ اور غمزدہ آواز میں ان کی ڈھلتی ہوئی کیفیت کو بتاتے رہے، طبیعت کے اندر نئی تبدیلی اور انکشاف سے ہمیں محسوس ہوا کہ آفتاب اگرچہ نکلا ہوا ہے مگر ہمارے گھر کا آفتاب اب غروب ہونے ولاہے، ان ہمسفروں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ اللہ کا مبارک کلمہ ورد زبان تھااور تشہد کی ہیئت کی طرح انگشت شہادت بار بار آسمان کی جانب اٹھا رہی تھیں، گویا یہ زندگی کی آخری لمحات میں اپنے خالق ومالک کی توحید کا اعلان اور رسالت کا اقرار تھا۔قابل رشک ہے یہ کیفیت اللہ ہم سب کو یہ دولت نصیب کرے۔اوربالآخر جمعہ سے پہلے کسی طرح افتان وخیزاں اپنی ہی کار سے میڈیکل ہسپتال کے گیٹ پر پہنچ گئے مگر قسمت کی خوبی دیکھئے کہ ٹوٹی کہاں کمند بظاہر صحت کی امید میں میڈیکل ہسپتال کا یہ سفر دائمی فرقت وجدائی کا سفر ثابت ہوا۔
ہر ممکن برق رفتاری سے میڈیکل کالج کے آئی سی یو میں داخل کی گئیں وقفہ وقفہ سے ڈاکٹروں کی آمد ورفت اور ان کا لب ولہجہ موت وزیست کی آخری کشمکش کی غمازی کر رہا تھا، فضا افسردہ تھی اور اداس لمحے اب یہ کہہ رہے تھے ؎
غم حیا ت کا جھگڑا مٹارہا ہے کوئی چلے آئو کہ دنیاسے جا رہا ہے کوئی
میری بھتیجی مازیہ اسپتال کے طویل وعریض راہداری میں بے تابانہ سجدہ میں گری گردوپیش سے بے خبر سمت قبلہ سے بے نیاز اپنے رب ومعبود سے اپنی محبوب ماں کیلئے زندگی کی التجا کر رہی تھی، میں وفور جذبات وفرط غم سے تسلی کا ایک چھوٹا سا جملہ بھی کہنے پر قادر نہیں تھا۔ مجھے خود سہارے کی ضرورت تھی مگر وہاں آہ وفغاں غم والم سے بھری فضا وماحول میں کون سہارا دیتا،اِنَّمَا اَشْكُوْا بَثِّیْ وَ حُزْنِیْۤ اِلَى اللّٰهِ اپنے رنج وغم کی شکایت توصرف اپنے اللہ سے کرنی ہے۔
صورت حال کی نزاکت کا علم اہل خانہ کو ہوتا رہا گھر کا ہر فرد تسبیح، مناجات ودعا میں مصروف تھا ۔ بالخصوص بردار عزیزکی کمسن بیٹی شفا اور احمد زعیم کے درد واضطراب وسوز دروں کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، وہ موج بےقرار کی طرح ساحلِ مراد پانے کی آرزو میں کبھی سربسجود ہوتے کبھی اپنی محبوب ماں کی صحت وقوت کی بحالی کیلئے دعا ومناجات میں مصروف ہوجاتے اور ان کے نازک ہاتھوں کی ہتھیلیاں آنسوؤں سے تر ہوجاتیں، دعائیں تمنا کی شکل میں سب اہل خانہ کی ورد زبان تھیں کہ کاش! مدتِ عمر میں کچھ اضافہ ہوجاتا ۔ کاش! نوخیز کلیوں کی کچھ دن اور نگہداشت کر لیتیں۔ کاش! ماں کے مشفقانہ لمس سے بچے ابھی محروم نہ ہوتے۔ کاش! کچھ دن اور محبت وشفقت کی تھپکیاں دے لیتیں اور گھر سے رخصت ہونے والی معصوم بچی کو گلے لگاکر اشک آمیز دعائوں اور دھڑکنوں کے ساتھ رخصت کرتیں۔ مگر ہم غافل انسانوں کی ایسی کتنی تمنائیں حسرتوں کا خاک بنتی ہیں اور آج یہ تمنا بھی خاک بن کر رہی۔ ماں اور بچوں کے فطری محبت وتعلق کا تقاضہ تو یہ ہے ماں جیسی ہستی دوامی شکل وصورت اختیار کر لیتی مگر قضا وقدر کے فیصلہ ومصلحت کے آگے سرتسلیم خم ہے اور کس کو دم مارنے کی مجال ہے۔ ؎
غیر تسلیم ورضا کو چارۂ درکف شیر نر خونخوارۂ
اسی مضطرب فضا وماحول میں جمعہ کے بعد عصر کے قریب آئی سی یو کے ڈاکٹر دبے قدموں آئے اور رحلت کی خبر سناگئے۔ اِنَّاللہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ میرے عزیز بھائی کی شریک حیات اور بچوں کی ماں، گھرانہ کی ہر دلعزیزفوزیہ روحی میڈیکل کے ان راستوں سے ’اللہ‘ کے دربار میں حاضر ہوگئیں۔ ؎
ویران ہے میکدہ خم وساغر اداس ہیں
اسی دوران میرے موبائل کی گھنٹی بجی، دوسری جانب میکس ہسپتال دہلی میں ایڈمیٹ برادر عزیز محمود کریم (عم زاد وخالہ زاد بھائی) تھے، گفتگو ہوئی مگر آج کی بات چیت صرف آنسوؤں سسکیوں سے ہوئی کبھی گفتگو ایسی بھی ہوتی ہے اور آنسوؤں کے یہ قطرے الفاظ وحرف سے کہیں بالاتر پیغام رسانی کا کام انجام دیتے ہیں۔ اس خاموش سیل رواں میں آواز الفاظ ومفہوم قدرتی طور پر پیدا ہوجاتے ہیں۔ اللہ رب العزت آنعزیز کو صحت کاملہ عاجلہ عطا فرمائے۔
رب کائنات کے مضبوط ومحکم نظامِ موت وحیات کے تحت بزم عالم کے چراغ زندگی اسی طرح جلتے بجھتے رہتے ہیں یہ سلسلۂ روز وشب نقش گر حادثات ہے یہاں کا ذرہ ذرہ پابستہ تقدیر اور ہر شئی اور ہر وجود ایک ڈھلتا ہوا سایہ ہے۔ كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ۔وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ’’جومخلوق زمین پر ہے وہ سب ایک دن فنا ہوجائے گی صرف آپ کے رب کی ذات باقی رہے گی۔ جو جلال والااور عظمت والاہے۔‘‘
میڈیکل اسپتال میں واقع موت کے بعد ایک مسئلہ نعش کے گھر پر لانے کا تھا مگر امداد غیبی کہہ لیجئے کہ ایک سے دو گھنٹہ کے درمیان مختلف مراحل آسانی سے طے ہوگئے ، میڈیکل ہسپتال کے بعض فعال عملہ کی کوششوں سے نعش کو براہ راست گھر لے جانے کی اجازت مل گئی اور تھوڑی ہی دیر میں بعض مخصوص کاروائی کے بعد ہم سب فوزیہ روحی کو ایمبولینس میں انہی سڑکوں پر روح زندگی سے محروم جسد خاکی کو گھر لے جانے لگے، جہاں ابھی کچھ دن پہلے وہ زندگی وحیات میں اپنے بال بچوں کیساتھ آتی وجاتی تھیں۔ ابھی گنتی کے چند ایام گزرے ہونگے کہ اپنی لخت جگر کی نومبر میں طے شدہ شادی کی خریدوفروخت میں مصروف تھیں، پھولوں کے چننے میں مصروفِ عمل اس عزیزہ کو کیا معلوم کہ نشاط وبہار کی یہ کلیاں بہت جلدمرجھانے والی ہیں اور انہی راستوں سے بہت جلد اپنے گھر ایسے حال میں پہنچیں گی جہاں ان کے اہل خانہ اور بچوں پر قیامت گزر جائے گی۔
بالآخر میڈیکل اسپتال سے روشن باغ تک یہ صبر آزما ودلگداز سفر طے ہوا، ہماری منزل آگئی یہ بے حدنازک واعصاب شکن وقت تھا، ہم گھر میں داخل ہوئے اور پھر فرط غم وشدت الم سے چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
میں اس مقام پر غم دل کا افسانہ شاخ گل سے توڑے ہوئے پھولوں کی فریاد وزبان میں کرونگا جو’ پھول کی فریاد ‘ نام سے معروف وموسوم ہے۔
جس کی رونق تھا میں بے رونق وہ ڈالی ہوگئی
حیف ہے بچے کی گود ماں سے خالی ہوگئی
تتلیاں بے چین ہونگی جب نہ مجھکو پائیں گی
غم سے بھنورے روئیں گے اور بلبلیں چلائیں گی
میں بھی فانی تو بھی فانی سب ہیں فانی دہر میں
اک قیامت ہے مگر مرگ جوانی دہر میں
بچوں کے تعلق سے غم والم کی شدت دوگنی چہارگنی ہوجاتی ہے، حضرت جعفرؓ کی اہلیہ محترمہ اسماء بنت عمیسؓ فرماتی ہیں کہ میں آٹا گوندھ چکی تھی اور لڑکوں کو نہلا دھلاکر صاف کپڑے پہنا رہی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ جعفرؓ کے بچوں کو لائو میں نے ان کو حاضر خدمت کیا، تو آپﷺ نے آبدیدہ ہوکر ان کو پیار فرمایا، میں نے کہا کہ میرے ماں باپ فدا ہوں، حضور آبدیدہ کیوں ہیں، کیا جعفرؓ اور ان کے ساتھیوں کے متعلق کوئی اطلاع آئی ہے فرمایا ہاں! وہ شہید ہوگئے، یہ سن کر میں چیخنے چلانے لگی، محلہ کی عورتیں میرے ارد گرد جمع ہوگئیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے گئے اور ازواج مطہرات سے فرمایا کہ آل جعفرؓ کا خیال رکھنا آج وہ اپنے ہوش میں نہیں ہیں۔ (مہاجرین :جلد۱،ص۲۰۵)
احمد زعیم معصوم اپنے والد کے سینہ سے چمٹ کر جب یہ کہنے لگا کہ میں اب امی کے بغیر کیسے رہ سکونگا، آپ صبح کی چائے کس کے ساتھ پئیں گے؟ تو ہر دل میں طوفان اٹھااور ہر آنکھ چھلک پڑی، آغوش پدر میں بلکتے ہوئےماں کے سایہ شفقت سے محروم زخم خوردہ اس کمسن بچے کو برادر عزیز نے تسلی دیتے ہوئے جو ایمان افروز کلمات کہے ہیں وہ آب زر سے لکھے جانے کے لائق ہے۔ بیٹے! رسول اکرمﷺ کی والدہ محترمہ بھی دنیا سے رحلت کر گئیں تھیں جب وہ تمہارے ہی طرح نوعمر وکمسن تھے، ہائے! اہل ایمان کے پاس کیا دولت نایاب ہے کہ سرور عالمﷺ کی سیرت کا ہر پہلو اور ہر گوشہ ہم سب کے زخموں کا علاج اور تسکین کا مرہم ہے فصلواعلیہ وآلہٖ
ہم سب کا ارادہ تھا کہ دس بجے شب میں نماز جنازہ کے بعد تدفین کر دی جائیگی مگر اموات کی کثرت کی بنا پر کوئی گورکن قبر کھودنے پر آمادہ نہ ہوابالفاظ دیگر قبرستان کا عملہ کھدائی کے مسلسل عمل سے اتنا تھک چکا تھا کہ زمین پر کدال وپھائوڑا اٹھانے وچلانے کے لائق نہیں رہ گیا تھامگر اللہ کا شکر ہے کہ بعض احباب وبرادران عزیز کی پیہم سعی وکوشش رنگ لائی اورجے سی بی (کھدائی کی مشین) سے ابدی آرام گاہ تیار کی گئی مگر تاخیر کی بنا پر نماز جنازہ بوقت سحر بعد نمازفجر ادا کی گئی، اور پھر انہیں اپنے معروف قبرستان غوث نگرکریلی میں والدین رحمہمااللہ کے پاس ہی سپرد خاک کیا گیا۔ اور باچشم نم وجان شوریدہ لرزتے ہاتھوںمرحومہ کی تربت پر مشت خاک ڈالی گئی، اس طرح ہم سب کا قیمتی سرمایہ، کسی کی محبوب بہن، کسی کی شریک زندگی اور بچوں کے تعلق سے عالم آب وگِل کا سب سے مقدس ومحبوب رشتہ آج پیوند خاک ہوا۔اب ان کو دیکھا تو جا سکتا ہے مگر صرف خواب وعالم تصور کے دریچوں سے۔
مِنْھَا خَلَقْنَاکُمْ وَ فِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً أُخْرٰی’’اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا کیا تھا اسی میں ہم تمہیں واپس لے جائیں گے اسی میں سے تمہیں دوبارہ نکالیں گے، یعنی تو خاک ہے پھر خاک بن جائے گا‘‘آیت کریمہ بارہا سنی وپڑھی گئی ہے مگر آج اس کی عملی تفسیر ومعنوی مطابقت سے دل پر بہت چوٹ لگی۔
عالم غیب سے متعلق رحمت ومغفرت کے بارے میں قطعی فیصلہ تو نہیں کیا جا سکتا مگر آثار وقرائن سے مغفرت ورحمت کی امید کی جاسکتی ہے اور کی جانی چاہیے۔ مرحومہ فرائض ،سنن ونوافل کی پابند اور تلاوت قرآن کی دلدادہ تھیں اور تفسیر قرآن کا مطالعہ قدیم معمول تھا۔ پھر ماہ رمضان المبارک جمعہ کا دن عشرۂ رحمت میں رحلت اور عشرۂ مغفرت میں تدفین یہ ایسی علامات ہیں کہ اللہ کے فضل، مغفرت ورحمت کی عظیم بشارت کی امید تو کی ہی جا سکتی ہے، انشاء اللہ تعالیٰ۔
اللہ رب العزت اشکبار، دل فگار، بے قرار، جذبات میں صبر وسکینت، ودیعت کرے۔ اور استقامت وعزیمت عطا کرے۔ اور مرحومہ کو جنت کی دلفریب وبے نظیر مشکبار فضائوں میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ اور رنجیدہ والم رسیدہ خانوادہ مصلح الامتؒ کوصبر ورضا کی توفیق مرحمت فرمائے۔
داستان درد یہیں ختم نہیں ہوجاتی مرحومہ فوزیہ روحی کی تدفین کے بعد ہم تقریباً ۸بجے اپنے گھر پہنچے افتاد غم کے ایسے اثر انگیز مواقع پر دل ودماغ کی جو کیفیت ہوتی ہے اس سے ہر ایک بخوبی واقف ہے کہ میری عمر ومرتبہ میں سب سے بڑی بہن محترمہ ذکیہ آپا صاحبہ مدظلہا کے یہاں سے بذریعہ موبائل یہ اطلاع آئی کہ میرے بہنوئی محترم عرفان بھائی یعنی (مولانا عرفان احمد صاحب مدظلہٗ) کی طبیعت تشویشناک مرحلہ میں ہے، جلد از جلد آجائو میرا ان سے دہرا رشتہ ہے وہ میرے بہنوئی ہیں اور برادر نسبتی بھی۔
اپنے تازہ زخم وافتاد غم کو فراموش کر کے بغیر کسی توقف کے ہم سب گھر کے لوگ یکے بعد دیگرے ان کی جائے قیام پہ پہنچے، میں اسی خیال میں غلطاں وپیچاں تھا کہ معمول سے زیادہ آج طبیعت خراب ہوگی جلد ہی سنبھل جائیں گے مگر وہاں منظر دلگدازاور صورتحال جانگسل تھی۔
میری عزیزبھانجیاں اپنے ہوش میں نہیں تھیں ہمشیرہ محترمہ فرط غم سے خاموش مجسمہ بنی ہوئی تھیں کچھ اعزااحباب ومخلصین اضطراب وبے چینی میں کمرہ کے اندر موجود تھے ان کا نظام تنفس شدت نشیب وفراز سے تہہ وبالاتھا، بعض مخلصین ان کی دگرگوں کیفیت کو دیکھ کر ان کے پیروں پر سر رکھے زار زار رو رہے تھے آج میرے عرفان بھائی زندگی کے آخری لمحات میں تھے اور وہ تیزی سے عالم بالاکی جانب محوپرواز تھے ۔آج روح جسم کو چھوڑ رہی ہے عالم ناسوت سے رشتہ ٹوٹ رہا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ عظیم وقت آگیا کہ کلمہ طیبہ کے ورد کے دور ان ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ محبت، عشق، دارفتگی اور ہر تعلق ان کو اس دائمی سفر سے روک نہ سکے اور وہ ہمیشہ کیلئے ہم سب سے جدا ہوگئے۔ اِنَّالِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
فریب ہستی کی کہانی بس اتنی ہے کہ جسم سے روح کا رشتہ ٹوٹا آنکھیں بند ہوئیں اور آدمی افسانہ ہوا۔ ؎
روئیے زار زار کیا کیجئے ہائے ہائے کیا
محبت واضطراب اگر کسی کو بچاتے تو صدیق اکبرؓ کی مخلصانہ محبت ان کے محبوب ﷺ کو دائمی حیات عطاکرتی، فاروق اعظمؓ کا بے تابانہ اضطراب موت سے تحفظ فراہم کرتا مگر اس فیصلہ کے سامنے سبھی کے سر جھکے ہیں اور جھکیں گے، اسی لئے ایمان واسلام کے حاملین کو ایسے حوصلہ شکن وقت میں صبر رضا استقامت وعزیمت کی تعلیم وتلقین کی گئی ہے۔ رسول اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے:اِنَّ لِلہِ مَااَخَذَ وَلَہٗ مَااَعْطٰی وَکُلُّ شَیْئٍ عِنْدَہٗ بِأَجَلٍ مُسَمًّی فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْسِبْ۔
ترجمہ:جو کچھ اللہ نے لے لیا وہ اسی کا تھا اور جو دیا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کا ہے اور ہر چیز اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مدت مقررہ تک کیلئے ہے۔ تم صبر کرو اور اجروثواب کی امید رکھو۔
تقریبا پچاس سال بیتے ہوئے عرصہ کے دوران ہم سب اہل خاندان اور مصلح الامتؓ کے متعلقین ومخلصین کے لبوں پر ایک نام محبت وعظمت سے لیا جاتا عرفان بھائی۔۔۔ مولوی عرفان صاحب اور’ مولانا عرفان صاحب‘ سب کے دل میں بسنے والے، سب کے محبوب دلنشیں ومحترم کسی کے مشفق باپ، کسی کے مربی ومعلم بھی، کسی کے بھائی، کسی کے شریک حیات اور سب کے مسیحا وغمگسار اب اس فانی دنیا میں نہیں رہے اس محبوب ہستی کو بھی اسی مٹی کے حوالہ کیا گیا جہاں بزم ہستی کی سب سے معزز ہستی آرام فرما ہے ۔ ؎
اب ڈھونڈھ انہیں چراغ رخ زیبا لیکر
سچ پوچھئے تو شہر الہ آباد، اطراف واکناف میں ایک عظیم خلا پیدا ہوا اور بزم علم و معرفت اخلاق وتقویٰ کی شمع مدھم پڑگئی ان کی خصوصیات ان کے نقوش، ان کی پاکیزہ ادائیں ہمیشہ یاد آتی رہیں گی اور زخم دل کو تازہ اور آتش غم بھڑکاتی رہیں گی۔ ؎
یہ جان کر منجملہ خاصان میخانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ مجھے
رحلت کے فوراً بعد میں اندرونِ خانہ گیا شدت غم وفرط الم سے میرے جملہ اہل خانہ نڈھال بے قرار وبے چین تھے ان کی گریہ وزاری روح کی گہرائیوں میں اتر جانےوالی اور دل کو پارہ پارہ کرنے والی تھی آج ان کی محبت کا آسمان مالک آسمان کے پاس چلا گیا تھا اور رداء شفقت واپس لی جا چکی تھی ان کا دل زخموں سے چور تھا اور آنکھیں سیل اشک بہارہی تھیںکہ ؎
جوئے خوں آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شام فراق
میں یہ سمجھوںگا کہ شمعیں دو فروزاں ہوگئیں
مبالغہ سے خالی یہ ایک حقیقت ہے کہ جملہ اہل خانہ کے جذبات سمندر کے بے تاب موجوں کی طرح تھے، اور کیفیات ایسی تھیں کہ تاریخ میں موجود سیدۂ جنت حضرت فاطمہ الزہراءؓ کے صورت واقعہ کی تصویر سامنے آئی جب وہ اپنے محبوب چچا کی مفارقت پر زار زار روتے ہوئے، واہٗ عمّاہ واہٗ عماہ کہتے ہوئے سرور عالمﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں، آپﷺ نے یہ کیفیت دیکھ کر فرمایا:بے شک جعفر جیسے شخص پر رونے والیوں کو رونا چاہئے، ازواج مطہرات سے فرمایا کہ آل جعفر کا خیال رکھنا، آج وہ اپنے ہوش میں نہیں ہیں۔
آج خانوادۂ مصلح الامتؒ اپنے ہوش میں نہیں تھا اور جس شخصیت پر آج رویا جا رہا تھا وہ رونے کی مستحق تھی، دلوں کے مدوجزر اوراٹھتے ہوئے طوفانوں کو نوک قلم کے ذریعہ کیسے ضبط تحریر میں لایا جا سکتا ہے۔ خانوادۂ وصی اللّٰہی میں پے در پے دہرے افتادِ غم کا دوسرا دلدوز سانحہ اور دوسری تاریخ تھی۔ ایک وہ نازک وقت جب مصلح الامتؒ کی زندگی میں ان کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے داغ مفارقت دے گئیں جس کا تذکرہ مولانا عبدالرحمن بیخود فاروقیؒ نے اس طرح کیا ہے کہ ’’پیرانی صاحبہ کے وصال پر میں نے تعزیت کا خط لکھا شدت غم سے جذبات پر قابو نہ رہا‘‘ جواب میں ارشاد فرمایا کہ ’’دربار الٰہی میں شکوہ ٔ غم شان عبدیت کے منافی ہے، بہت سنبھل کے لکھا کرو ،ہمارا کام صرف صبر کرنا ہے اور بس‘‘۔ الہ آبادمیں دوجوان عمر لڑکیاں چند دنوں میں داغ مفارقت دے گئیں لیکن عندالملاقات جب کلمات غم عرض کئے تو فرمایا کہ وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُکَ اِلَّابِاللہِ۔ الخ۔ ترجمہ:اور آپ صبر کیجئے اور آپ کا صبر تو بس اللہ ہی کی توفیق سے ہے۔ (سورہ نحل پارہ۱۴)
خاندانوں وگھرانوں میں نزول مصائب کے تعلق سے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ناظرین سیدنا یعقوب علیہ السلام کا جگر پاش وایمان افروز مکتوب گرامی ملاحظہ کرتے چلیںجو انہوں نےاپنے نور نظر کو عزیز مصر سمجھ کر لکھا تھا:
منجانب یعقوب صفی اللہ ابن اسحاق ذبیح اللہ ابن ابراہیم خلیل اللہ، بخدمت عزیز مصر
’’امابعد،ہماراپوراخاندان بلائوںاورآزمائشوںمیںمعروف ہے، میرے داد ابراہیم خلیل اللہ کا نمرود کی آگ سے امتحان لیا گیا، پھر میرے والد اسحٰق کا شدید امتحان لیا گیا، پھر میرے ایک لڑکے کے ذریعے میرا امتحان لیا گیا جو مجھ کو سب سے زیادہ محبوب تھا، یہاں تک کہ اس کی مفارقت میں میری بینائی جاتی رہی اس کے بعد اس کا ایک چھوٹا بھائی مجھ غم زدہ کی تسلی کا سامان تھا جس کو آپ نے چوری کے الزام میں گرفتار کر لیا، اور میں بتلاتاہوں کہ ہم اولادِ انبیاء ہیں نہ ہم نے کبھی چوری کی ہے، نہ ہماری اولاد میں کوئی چور پیدا ہوا۔ والسلام۔
یوسف علیہ السلام نے جب یہ خط پڑھا تو کانپ گئے اور بے اختیار رونے لگے، اور اپنے راز کو ظاہر کر دیا۔(بحوالہ معارف القرآن جلد ۵)
ابتلا وآزمائش کے وقت انبیاء واولیاء صالحین وصدیقین کا شعار رہا ہے کہ زخم دل کھاکے خون جگر پی کے صبر واستقامت کا مجسم پیکر بنے لوگوں کو اسی کی تلقین کرتےرہے ہیں تاہم فطری تعلق وجوش محبت سے اشک غم کے قطرات صبر واستقامت کے منافی بھی نہیں ہیں۔ سیدنا یعقوبؑ کی بینائی صدمات کے تسلسل سے جاتی رہی اور خود سرورعالمﷺ کے لب اقدس سے یہ غم آمیز کلمات سنے گئے: اِنَّ الْعَیْنَ تَدْمَعُ وَالْقَلْبُ یَحْزنُ وَلَانَقُوْلُ اِلَّا مَا یَرْضَی رَبُّنَا وَاِنَّابِفِرَاقِکَ یَااِبرَاھِیْمُ لَمَحْزُوْنُوْنَ ۔(بخاری ومسلم) غم فراق سے دل رنجیدہ اور آنکھیں آنسوئوں سے چھلکتی ہیں، اور زبان سے ہم وہی کہیں گے جو اللہ کو پسند ہو اور اے ابراہیم! ہم تمہاری جدائی سے شکستہ خاطر ہیں۔ اللہ رب العزت اس جانگسل روح فرسا وقت وساعت میں اہل خانہ کو صبر جمیل صبروسکینت عطا فرمائے۔
محترم عرفان بھائی مدظلہٗ والد ماجد جانشیں مصلح الامتؒ کے صرف داماد وخویش ہی نہیں بلکہ ان کے مخلص معتمد دست راست وزیر ومشیر کی حیثیت سے رہے۔ ادارہ خانقاہ مدرسہ اوررسالہ وصیۃ العرفان کے مضامین کی ترتیب وتدوین سالہا سال تک جس طرح خاموشی سے انجام دیں، شہرت نام ونمود القاب وآداب سے بالاتر ہوکر جو بے نظیر مخلصانہ فرائض اداکئے وہ ہر ایک مدعی کے بس کا نہیں، ان کی جلیل القدر خدمات بلند وبالاعمارات ومحلات کی ان مضبوط بنیادی پتھروں کی تھیں جو نظروں سے اوجھل ہوکر عمارتوں کے قیام کا بنیادی سبب ہوتی ہیں، سبز وشاداب درختوں کی شادابی کا سارا مدار جڑوں میں سرایت کردہ پانی پر ہوتا ہے مگر یہ آب حیات نظر نہیں آتا، ریاونمائش سے بھری اس دنیا میں اللہ کے کچھ مخصوص بندے ایسے بھی ہوتے ہیں جو سب کچھ کرتے ہیں مگر لب سے کچھ کہتے نہیں ہمارے مرحوم عرفان بھائیؒ بھی انہیں خوش نصیب انسانوں میں سے تھے تمام فرائض کی انجام دہی کے بعد بھی نہ زبان سے خدمات کا تذکرہ کرتے نہ قلم سے اظہار کرتے، خدا کی رضا جوئی کیلئے یہ سب کرنا’ یہ عشق ہے پیارے کھیل نہیںہے‘۔
آج راہ محبت میں اپنی نوجوانی، جوانی، بڑھاپا اور ساری توانائیاں نثار کر کے اپنے جزا دینے والے رب کے پاس پہنچ گئے مگر ان خصوصیات کیساتھ ایسی پاکیزہ اعلیٰ خدمات کی انجام دہی کیلئے یہ فلک بر سوں پھرتا ہے تب خاک کے پردہ سے ایسی شخصیت نمودار ہوتی ہے ۔ ؎
بہت شیشے پگھلتے ہیں تو ایک پیمانہ بنتا ہے
نصف صدی کا عرصہ کچھ کم نہیں ہوتا اس دوران ہندوستان کے مختلف اضلاع کے مختلف صوبوں سے تعلق رکھنے والے طلباء وفارغین مدرسہ وصیۃ العلوم کے دل ودماغ میں علم وعرفان اتباع شریعت کا جو چراغ جلایا اور فارغین فاضلین کی جوایمانی اخلاقی وروحانی تربیت کی وہ انشاء اللہ آخرت کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوگا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عظیم بشارت کے ضرور مستحق ہوں گے۔
نَضَّرَ اللہُ عَبْداً سَمِعَ مَقَالَتِیْ فَحَفِظَہَا وَوَعَاھَا۔ الخ۔
اللہ رب العزت اس بندے کا چہرہ روشن وتاباں کرے جس نے میری بات کو سنا اور یاد کیا اور خوب ذہن نشیں کیا۔ اور اسے لوگوں تک پہنچایا۔ (مشکوٰۃ کتاب العلم)
محترم عرفان بھائی اور اب (رحمہ اللہ) کا خاندان معزز ونمایاں تھا۔ دادھیال ونانھیال دونوں ہی میں علم، مال، وجاہت، وشرافت ہمارے وطن واطراف میں معروف ومشہور تھی۔ قدیم قرابت داری کے علاوہ اس نئی قرابت داری نےہم سب کو یک جان دو قالب کر دیا تھا۔ ایسی قربت کہ زندگی میں ان کے بغیر زندگی وحیات کا تصور نا ممکن تھا۔
اتفاقات بھی عجیب ہوتے ہیں، حالات مصلح الامتؒ کے مصنف(ترجمان مصلح الامت) مولانا عبدالرحمن جامی علیہ الرحمہ محترم عرفان بھائی رحمۃ اللہ علیہ کے محترم نانا صاحب کے متعلق رقم طراز ہیں کہ جناب مولوی حکیم ظہیر الدین صاحب اعظمی حضرت والارحمہ اللہ کے وطن فتح پور سے قریب ہی موضع ندوہ سرائے کے رہنے والے تھے۔ زمانہ ٔ طالب علمی میں حضرت والاؒ کے ہم سبق رہے ہیں۔ تیز وذہین طلبا میں آپ کا شمار تھا۔ چنانچہ حضرت والاؒ فرماتے ہیں کہ ہماری جماعت کو اکثر تکرار حکیم صاحب ہی کراتے تھے۔ فراغت کے بعد طب شروع کر دی، اور علی گڑھ سے فارغ ہوکر وہیں طبیہ کالج میں ملازم ہوگئے۔ اور فن طب کی تعلیم میں مشہور اساتذہ میں سے تھے۔ (حالات مصلح الامتؒ جلد ۱ صفحہ ۹۴)
وقت گزرتا رہا، گردش لیل ونہار کے بعد وہ دن آیا کہ فاضل گرامی محترم مولانا حکیم ظہیر الدین صاحب کے قدیم تعلق نے ایک نئی کروٹ لی اور ان کے فاضل نواسے یعنی مولانا عرفان احمد صاحبؒ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے اور جانشیں مصلح الامتؒ کے سب سے بڑے داماد بنے۔ اور پھر اس چمن ادارہ وخانقاہ کی بے نظیر وعظیم خدمات انجام دیں۔ والد ماجد کے معاون خصوصی بن کر ادارہ، مدرسہ وخانقاہ کو اسی وضع، انداز وطریق پر رکھا جو ہمارے اسلاف وبزرگوں کا مزاج ومنہاج تھا۔ اور یہ بات سب پر عیاں ہے کہ بزرگوں کی باقیات صالحات کی بقا، فروغ وتحفظ کیلئے کتنی قربانیاں دینی پڑتی ہیں، کتنے تلخ وکڑوے گھونٹ پینے پڑتے ہیں۔ تب خاک کے پردوں سے لالہ وگل نمایاں ہوتے ہیں۔ اللہ ان کے قبر اطہر کو نور سرور سے بھر دے۔ ؎
بنا کردند خوش رسمے بخاک وخون غلطیدن
خدا رحمت ایں عاشقانِ پاک طینت را
(ترجمہ:خون وخاک میں تڑپنے کےایک عمدہ رسم کی ان عالی ہمّت انسانوں نے بنیاد ڈالی۔ خدا ان پاک طینت نیک فطرت عاشقوں پر اپنی بے پایاں رحمت نازل کرے)۔
ان کے موقر ومحترم سمدھی پروفیسر محمد اعظم قاسمی صاحب (خلف الرشید حکیم الاسلام قاری محمد طیب رحمہ اللہ) نے اپنے تعزیتی مکتوب میں محترم مرحوم عرفان بھائی کی شخصیت کی دل آویز ترجمانی کی ہے۔ رقم طراز ہیں کہ عرفان بھائی کا اس دار فانی سے رخصت ہوجانا کوئی عام سانحہ نہیں ہے۔ اللہ والے اور اللہ کے ایسے بندے جن کی صورت دیکھ کر خدا یاد آئے وہ زمین وآسمان میں اللہ کے نمائندے اور ترجمان ہوتے ہیں۔ اور ان کے اس دنیا سے جانے پر ایک ایسا خلا پیدا ہوجاتا ہے جس کو بھرنے کیلئے ایک ز مانہ چاہئے۔ اور ایک وسیع حلقہ میں مایوسی اور محرومی کا احساس پیدا ہوجاتا ہے۔ ؎
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
سفر آخرت وتدفین:ادھر سالہا سال سے وہ مختلف گوناگوں امراض کے شکار تھے، مگر اپنی فطری ہمت شجاعت اور ایمانی قوت سے اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ چہرہ پر وہی شگفتگی تازگی ورعنائی، گفتگو میں وہی سلاست وحلاوت۔ مولانا عرفان الحق صاحب ساکن فتوحہ نے صحیح تصویر کشی کی ہے کہ حسن خدا داد کیساتھ ذکر اللہ کی نورانیت چہرے سے صاف جھلکتی تھی۔ عابد شب زندہ دار اور صاحب نسبت ہونے کے باوجود اخفاء حال میں حددرجہ مبالغہ کرنے کا مزاج تھا مگر ؎
مرد حقانی کی پیشانی کا نور
کب چھپا رہتا ہے پیش ذی شعور
ایک مرتبہ بمبئی کے سفر کے دوران بغل میں بیٹھے ایک غیر مسلم نوجوان نے مجھ سے سرگوشی میں کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ان کے چہرہ پرسوواٹ کا بلب جل رہا ہے۔ اتنا منور چہرہ۔ بقول اقبال ؒ ؎
بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی
موت کا پیغام ہمیشہ خاموشی سے آتا ہے، قضا دبے پائوں آتی ہے کسی فردوبشر کو قطعی علم نہیں۔ تاہم اللہ کے مقرب ومخصوص بندوںکو اپنے آخری سفر کا احساس وانکشاف ہوجاتا ہے۔ ادھر وصال سے چند ماہ قبل ہی وہ اس طرح کے الوداعی جملے مختلف انداز سے مختلف مواقع پر کہنے لگے تھے کہ گویا وہ اپنی ابدی آرام گاہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں۔ ؎
قلندر ہرچہ گوید دیدہ گوید
(ترجمہ:مرد مومن جو بھی کہتا ہے بصیرت کی روشنی میں کہتا ہے)
بالآخر اس گزرے ہوئے ماہ رمضان کے مبارک ایام میں کروناؔ جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوئے اور چند دن کی کشمکش کے بعد ۱۱؍رمضان بروز سنیچر دن میں ساڑھے بجے ہمیشہ کیلئے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ ؎
حیف درچشم زدن صحبت یار آخر شد
(ترجمہ:افسوس کہ پلک جھپکتے ہی یار کی ہم نشینی ختم ہوگئی)
بعد نماز عشاء ابوبکر مسجد میں نماز جنازہ ادا کی گئی۔ نماز جنازہ پڑھانے کی سعادت راقم الحروف کے حصہ میں آئی۔ لرزتے دل، تھرتھراتے جذبات سے تکبیرات اداکی گئیں، ہر تکبیر تیر کی طرح دل میں پیوست ہوئی۔ محبت وعقیدت میں ہزاروں لوگ اپنے کاندھوں پر گہوارہ لے چلے اور کچھ مسافت گاڑی سے طے کی گئی۔ اور پھر وہ وقت بھی آیا جب باچشم نم سپرد خاک کر دیا گیا۔ ؎
رونق دل گئی حاصل دل گیا
انجمن نور کی اور بے نور ہے
تدفین کے بعد دیر تک ان کی قبر پر کھڑا رہا، میں کیسے کہوں کہ میرے دل کی کیفیت کیا تھی۔ بہت سی وارداتِ غم کی کیفیات بیان نہیں کی جاسکتیں دل کی بہت سی چوٹیں جملوں میں ڈھل نہیںپاتیں، بے قرار دل کے اضطراب کو الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا جا سکتا۔ آج ہم سب اہل خانہ کا یہی حال تھا، ایک سوگوار سکوت کے عالم میں اپنے سرمایۂ محبت کو ارحم الرحمین کے حوالہ کر کے بوجھل قدموں کیساتھ اپنے گھر لوٹ آئے۔
ان کی مخصوص ڈائری جو انہوں نے یہ کہہ کر میرے حوالہ کی تھی کہ یہ تمہارے کام آئے گی۔ تدفین کے بعدڈائری کے سرورق ان کی قلم سے لکھے ہوئے یہ دلگداز اشعار یاد آگئے۔ ؎
توغنی از ہردوعالم من فقیر روز محشر عذرہائے من پذیر
ورحسابم راتو بینی ناگزیر ازنگاہ مصطفےٰ پنہاں بگیر
بارالہا! آپ دونوں جہاں سے بے نیاز ہیں اور میں سراپا محتاج ہوں۔ لہٰذا حشر کے دن میرے عذر قبول کر لیجئے اگر آپ میرا حساب لینا ہی ضروری سمجھیں تو از کم حضور اکرمﷺ کی نگاہ سے چھپاکر حساب لیجئے گا۔
اللہ رب العزت کے لامحدود وبے پایاں رحم وکرم کی شان کریمی سے امید ہے کہ یہ ان کی عاجزانہ التجا والتماس رائیگاں نہ جائیگی، اور وہ جنت الفردوس کے اعلیٰ مقام میں ہوں گے، ارحم الراحمین سے اسی عفو، فضل وکرم کی ہمیشہ امید رکھنی چاہئے۔ ؎
آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
قارئین وناظرین سے بصد ادب التماس ہے کہ زخم خوردہ والم رسیدہ ہمشیرہ صاحبہ، غمزدہ ورنجیدہ بھانجیاں اور جملہ پسماندگان کیلئے دل سے دعاکریں کہ اللہ رب العزت صبر، قرار وسکینت عطا فرمائے۔
اخیر میں غم والم سے نڈھال ہم سب پسماندگان نیز ہر صاحب ایمان کو رسول اللہﷺ کا یہ تعزیت نامہ مستحضر رکھنا چاہئے جو حضرت معاذ ؓ کو ان کے صاحبزادے کے انتقال کے وقت لکھا تھا۔ اس مبارک تعزیت نامہ میں ہر صاحب ایمان مرد وعورت کےلئے تعزیت ونصیحت، تسلی وتشفی کا پورا سامان ہے۔ انشاء اللہ العزیز رسول اکرمﷺ کی ان ایمان افروز سطروں سے سکون، صبر وقرار ضرور حاصل ہوگا۔
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ کے رسول محمدﷺ کی طرف سے معاذ بن جبل ؓکے نام ۔
سلام علیک ! میں پہلے تم سے اللہ کی حمد بیان کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ (بعد ازاں) دعا کرتا ہوں کہ اللہ تم کو اس صدمہ پر اجر عظیم دے، اور تمہارے دل کو صبر عطا فرمائے۔ اور ہم کو اور تم کو نعمتوں پر شکر کی توفیق دے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری جانیں اور ہمارے مال او رہمارے اہل وعیال یہ سب اللہ تعالیٰ کے مبارک عطیہ ہیں اور اس کی سپرد کی ہوئی امانت ہیں(اس اصول کے مطابق تمہارا لڑکا بھی تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت تھا)۔ اللہ تعالیٰ نے جب تک چاہا خوشی اور عیش کے ساتھ تم کو اس سے نفع اٹھانے اور جی بہلانے کا موقع دیا اور جب اس کی مشیت ہوئی اپنی اس امانت کو تم سے واپس لے لیا۔ وہ تم کو اس کا بڑا اجر دینے والاہے۔ اللہ کی خاص نوازش اور اس کی رحمت اور اس کی طرف سے ہدایت (کی تم کو بشارت ہے)، اگر تم نے ثواب اور رضاءِالٰہی کی نیت سے صبر کیا۔ پس اے معاذ! صبر کرو اور ایسا نہ ہو کہ جزع وفزع تمہارے قیمتی اجر کو غارت کر دے اور پھر تمہیں ندامت ہو (کہ صدمہ بھی پہنچا اور اجر سے محرومی بھی رہی)۔ یقین رکھو کہ جزع وفزع سے کوئی مرنے والاواپس نہیں آتا اور نہ اس سے رنج وغم دور ہوتا ہے، اور اللہ کی طرف سے جو حکم اترتا ہے وہ ہوکر رہنے والاہے، بلکہ یقینا ہوچکا ہے۔ والسلام۔ ‘‘ (معجم کبیر ومعجم اوسط الطبرانی ، بحوالہ ٔ معارف الحدیث، جلدسوم)
میں اپنے مضمون کا اختتام رسول اللہ ﷺ کی اس مبارک دعا سے کرتا ہوں۔
اَللّٰھُمَّ اِنَّ فَلَانَ بْنِ فُلَانٍ فِی ذِمَّتِکَ وَحَبْلِ جَوَارِکَ فَقِہْ مِنْ فِتْنَۃِ الْقَبْرِ وَعَذَابِ النَّارْ۔ وَاَنْتَ اَھْلُ الْوَفَاءِ وَالْحَقِّ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَہٗ وَارْحَمْہُ اِنَّکَ اَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمَ۔
(ترجمہ:اے اللہ تیرا یہ بندہ فلاں بن فلاں تیری امان میں اور تیری پناہ میں ہے۔ تو اس کو عذاب قبر اور عذاب نار سے بچا۔ تو وعدوں کا وفا کرنے والااور خداوند حق ہے۔ اے اللہ تو اس بندے کی مغفرت فرمادے، اس پر رحمت فرما، تو بڑا بخشنے والااور مہربان ہے)۔ (سنن ابی دائود، سنن ابی ماجہ)