Wasi Academy is a Muslim Minority Educational Society based at Allahabad. It runs several educational and welfare programs in and outside Allahabad. The Academy owes its existence to the selfless service and untiring efforts of the great Sufi saint His Holiness Hadhrat Shah Wasiullah Rahmatullah Alaih, who taught love, amity and devotion. He was a saint who looked upon everyone as equal and was never biased. His efforts in the field of education, both Islamic and modern, are also remarkable. His khanqua’ah continues to send out a message of spirituality, integrity, and harmony to this day. It is a sanctuary where people from all walks of life come to find peace within and around… Read More

یہ سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

رمضان اورتراویح میں بڑا گہرا رشتہ ہے ۔رسول اللہ ﷺ ، عہد صحابہؓ، تابعین، وتبع تابعین سے یہ عمل تسلسل سے جاری ہے۔ اس ماہ میں تراویح کی عبادت ’’عبدیت وبندگی‘‘ کے اظہار کے لئے ایک بہترین عمل ہے۔ اس میں قیام بھی ہے، قراءت بھی ہے، قعود وسجود بھی ہیں، وہی سجدہ جس میں بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب ہوجاتا ہے۔
اس ماہ میں عبادت کا یہ طریقہ سرورِ عالمﷺ نے سکھایا ہے، اور اُن سے زیادہ بارگاہ الٰہی کا ادب شناس کون ہوسکتا ہے؟
اللہ اللہ! عرش بریں کے مالک نے آسمانوں کی سیرکرائی، جنت ودوزخ کا مشاہدہ کرایا، قرب کے اس مقام پر پہنچے کہ سالارِ ملائکہ جبریل امین کے قدم آگے بڑھنے سے رُک گئے۔
اپنی زبوں حالی، بدعملی اور ہر طرح کے گناہوں کے بوجھ کیساتھ ساتھ ربِ عظیم کے عالیشان دربار میں کوئی کیسے مناجات کرے؟ دلِ داغ دار کی کیسے ترجمانی کرے؟ رہبرِ عالمﷺ نے ہمیں بتایا ہے، سنایا ہے، دکھایا ہے۔ کیا اُن سے بہتر اظہارِ عبدیت بندگی ونیاز کا کوئی انداز وسلیقہ سکھا سکتا ہے؟
آئیے! ماہِ رمضان کے دوران معمولات نبویؐ کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ مسجدِ نبویؐ میں چٹائی چار اطراف میں کھڑی کر کے ایک حجرہ سابنادیا جاتا تھا، اس میں آپﷺ اعتکاف کیا کرتے تھے، وہیں اسی عارضی مبارک حجرہ میں آپؐ نے تراویح کی نماز پڑھنا شروع کی۔جسے ’’قیامِ رمضان‘‘ کہا جاتا ہے، صحابۂ کرام ؓ نے جب دیکھا کہ آپؐ قیامِ رمضان(تراویح) کی نماز پڑھ رہے ہیں ، وہ بھی آپؐ کے پیچھے نیت باندھ کر کھڑے ہوگئے۔ دوسرے دن دیگر صحابۂ کرامؓ کو پتہ چلا تو ایک بڑی جماعت شریک تراویح ہوگئی ۔ جب تیسری رات آئی توذوقِ عبادت ولذتِ آشنائی سے معمور صحابہ کرامؓ نے دیکھا کہ مبارک شب ہے ، رسول اکرم ﷺ نماز کے عالم میںمحومناجات ودعا ہیںتو آپ کی امامت میں سربسجود ہونے کی تمنا میں اصحاب کرامؓ پروانہ وار جمع ہوئے اور پوری مسجدِ نبویؐ بھر گئی ۔
پیکرِ رحمت رسول اکرم ﷺ نے صحابۂ کرامؓ سے از راہ شفقت ورحمت جو جملہ ارشاد فرمایا وہ دل کو پارہ پارہ کرنے والاہے کچھ اس طرح مخاطب ہوئے کہ ’’اللہ تعالیٰ کو تمہاری یہ نماز بہت پسند آئی مجھے یہ ڈر ہے کہ کہیں تمہارے ذمے یہ فرض نہ ہوجائے، اور تم لوگ بے ہمتی کی وجہ سے اس فریضے کو بجانہ لائے تو اس کا بہت شدید گناہ ہوگا، اس لئے کل سے میں تمہیں جماعت سے نہیں پڑھائونگا بلکہ تم لوگ اپنے طور پر پڑھ لو‘‘۔
تراویح کی بیس رکعت ہیں، ہر رکعت میں دو سجدے ہیں، اس طرح مجموعی اعتبار سے چالیس سجدے ہوئے، جو اللہ رب العزت کے قرب کا سب سے اعلیٰ مقام سب سے برتر ذریعہ ہے۔ کتنے پیار سے قرآن کریم میں بندوں سے خطاب کر کے فرمایا سجدہ کرواور میرے پاس آجائو
عشق ومحبت کا دستور نرالاہےاسے چھٹی نہ ملی جسے سبق یاد رہا، سرور عالم ﷺ نے امت کو زحمت ومشقت سے بچانے کے لئے مستقل باجماعت نماز سے احتراز کیا۔ کیا محبوب کی گلی اس لئے چھوڑی جا سکتی ہے کہ وصل کا راستہ بہت پُر مشقت ہے بقول غالب ؎
جس کو ہو جان ودل عزیزاس کی گلی میںجائے کیوں؟
مسلک ومشرب، حجت وتکرار، بحث ومباحثہ سے بالاترہوکر سرور عالمﷺ کی ہر ادا کو چشم محبت سے دیکھئے ہر منزل سہل ہوگی، ہر چراغ جل اٹھے گا، اور ہر سجدے سے یہ ندا آئے گی۔
نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ۔
(ہم بندے کی رگِ جاں سے بھی زیادہ قریب ہیں)

یہ فریب خوردہ شاہیں
احادیث نبویہؐ سیرت طیبہ کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فرائض کے علاوہ سنن ونوافل دراصل فرائض کی تکمیل کے لئے ہیں، ان طاعات سے اللہ رب العزت کاقرب نصیب ہوتاہے۔ حدیث قدسی ہے کہ بندہ نوافل کے ذریعہ میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ میری آنکھ بن جاتا ہے جس سے وہ دیکھتا ہے، میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے۔ اقبال علیہ الرحمہ نے اسی بندۂ مومن کی خوبصورت تعریف کی ہے     ؎
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ غالب وکارآفریں کارکشا ،کارساز
ہم مسلک ومشرب کے جزوی فرعی اختلافِ فکرو نظر میں صدیوں سے الجھے ہوئے ہیں دین ومذہب نہیں بلکہ اپنی فکرو رائے کی برتری، اپنی جماعت کی ’’تفوق‘‘ کے لئے اپنی توانائیاں صرف کر رہے ہیں، یہ ثابت ہے یہ نہیں، یہ صحیح ہے یہ نہیں ہے کی بحث وتکرار میں طاعات، اذکار ونوافل، خشوع وخضوع، تلاوت ورقت، سوز وگداز، انابت وندامت کی کیفیات دم توڑگئیں۔ اور اب دن کے شہسوار کاروباردنیا میں چاق وچوبند اور رات میں خدا کے سامنے سربسجود ہونے والے کم نظر آتےہیں۔    ؎
یاوسعت افلاک میں تکبیر مسلسل یاخاک کے آغوش میں تسبیح ومناجات
ان مباحثوں کے نتیجہ میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ادب واحترام کو بالائے طاق رکھ کر نوافل وسنن،د عاومناجات سے فارغ ہوگئی۔ خوش گپیوں میں مشغول ان نوجوانوں کو بازاروں میں پھرنا تو منظور ہے مگر بہرِخدا، یادِخدا کے لئے تھوڑی دیر اللہ کے دربار میں بیٹھنا گوارا نہیں۔ جہاں اُن کی طاعت وعبادت اور آنسوئوں کی اتنی بڑی قیمت ہے کہ عرشِ الٰہی کے اس مقدس سایہ میں جگہ ملے گی جہاں اور جس دن کوئی دوسرا سایہ نہیں ہوگا۔
بے باکی وبے ادبی کچھ حدسے بڑھی کہ توحید کے پندار واظہار میں’’ عین کعبہ‘‘ اور روضۂ رسول میں مرقدِ انورؐ کے سامنے بے ادبی و جسارت کا ارتکاب کر کے موحدِ اعظم بن جاتے ہیں، جہاں کے آداب محبت وعظمت کا تقاضہ یہ تھا کہ    ؎
باخدا دیوانہ باش وبامحمد ہوشیار
خدا کے دربار میں پہنچوتو دیوانگی کی کیفیت ہونی چاہئےاور دربار محمدیؐ میں ادب واحترام ، آداب کی رعایت ا سلئے ضروری ہے کہ ادنیٰ سی گستاخی ’’حبطِ اعمال‘‘ کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ اللہ رب العزت نے بھی اپنے محبوبؐ کے دربار میں ادب واحترام بجالانے کی تاکید کی ہے ، آیت مبارکہ کا مفہوم کچھ اس طرح ہے :کہ ’’اے ایمان والو! نبی اکرمﷺ کے سامنے اونچی آواز میں بات نہ کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ دامنِ عظمت چھوٹنے کے نتیجہ میں تمہاری ساری نیکیاں راکھ کا ڈھیر ہوجائیں‘‘۔ 
گھٹے تو ایک مشت خاک ہے ورنہ
اس عالمِ آب وگِل میں مختلف تخلیقی مراحل سے گذر کر تنگ وتاریک ’’رحمِ مادر‘‘ سے ایک پیکر وجود میں آیا، جس کو انسان کہاجاتا ہے۔ اس ’’احسنِ تقویم‘‘ کی تخلیقی وتدریجی مراحل کا تذکرہ قرآن میں موجود ہے۔ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَّكِينٍ0۔ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًاۗ-ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ-فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ0(سورہ مومنون14,13:)
ترجمہـ:(پھر ہم نے اس کو نطفہ بناکر ایک محفوظ مقام میں رکھا، پھر نطفہ کو جما ہوا خون بنادیا، پھر جمے ہوئے خون کو گوشت کی بوٹی بنادیا، پھر گوشت کی بوٹی سے ہڈیاں بنائیں، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھادیا، پھر ہم نے اس کو ایک نئی صورت میں اٹھاکر کھڑا کر دیا تو بڑی ہی بابرکت ہے اللہ کی ذات، جو سب سے بہتر بنانے والے ہیں)۔
اس کو عقل ومعرفت عطاکی گئی، خیروشر کی تمیز بخشی گئی،قرآن مجید کی بلیغ ترین تعبیر کے مطابق( فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا)۔ ہم نے انسان کے اندر بدکرداری وپرہیزگاری کے دونوں تقاضے ڈال دیئے، دونوں کی معرفت عطا کی۔
یہ مجبورِ محض بھی نہیں، مختار کل بھی نہیں، جبرواختیار کے درمیان یہ پیکرِ وجود ایک بہترین نمونہ ہے ، اس سے نیکیاں بھی سرزد ہوتی ہیں، خطائوں کا صدور بھی ہوتا ہے، گرتا بھی ہے، سنبھلتا بھی ہے، اپنے فطری تقاضۂ بشری سے نیکیوں پر آمادہ ہوتا ہے تو وسعت کونین میں نہیں سماتا اور طبعی تقاضہ کے غلبہ سے لغزش ہوتی ہے، قدم ڈگمگاتا ہے تو پھر اس کے پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے     ؎
گھٹے تو ایک مشت خاک ہے ورنہ بڑھے تو وسعت کونین میں سمانہ سکے
خالق ارض وسماء پر یہ بات مخفی نہیں تھی کہ حضرت انسانؔ دنیا کی دلفریبیوں میں الجھیں گے، غفلت ایسی ہوگی کہ مقصد تخلیق ہی نہیں اپنے مالک، خالق ومربی ہی کو بھول بیٹھیں گے، گناہوں کے ہر شاہراہ سے گزر کر جب عطاکردۂ جذبۂ خیر بیدار ہوگا، ضمیر جاگے گا، ندامت ہوگی، حسرت ہوگی مگر پچھتاوے کی اس دہلیز پروہ کرے تو کیا کرے، جائے تو کہاں جائے۔ ایسی منزل میں ایسی کیفیت سے دوچار خطاکار وشرم سار انسانوں کیلئے ربِ غفور وکریم نے توبہؔ کا دروازہ کھول رکھا ہے۔ جرم کیسا بھی ہو، زندگی جیسے بھی گزری ہو، متاع دین ودانش لٹواکر جب بھی ہوش آیا ہو تو شاعر کی زبان میں ندائے غیبی یہی آتی ہے    ؎
باز آ باز آ ہر آنچہ ہستی باز آ گر کافر و گبر و بت پرستی باز آ
ایں درگۂ ما در گۂ نومیدی نیست صد بار اگر تو بہ شکستی باز آ
(خطاوگناہ کے جس منزل سے بھی گزر کے آئے ہو،توبہ شکنی کے پیمانوں کا اگرچہ ڈھیر ہو ، ہمارے دربار میں آجائو، ہمارا دربار ناامیدی کا دربار نہیں ہے)
اس غافل انسان کو پروردگار نے ناامیدی کی اِس وادی میں، یاس کی اِس کیفیت میں بے یار ومددگار، بے قرار ومضطرب نہیں چھوڑا۔ یہاں بھی دستگیری کی، وہ بھی ایسی دستگیری کہ ہر خطاو لغزش کو توبہ ومعافی کے ذریعہ اپنے قرب اوروصال کا ذریعہ بنادیا۔
اپنے محبوب معزز ومکرم پیغمبر ومبشرِاعظمﷺ کے ذریعہ یہ خوشخبری سنائی  کُلُّکُمْ خطَّاؤنَ، وخير الخطَّائين التَّوابُوْن۔(تم سب خطا وار ہو ، اور اچھے خطاوار وہ ہیں جو توبہ کرتے رہتے ہیں۔)
اس ماہ مبارک کی گھڑیاں کیا آپ یونہی جانے دیں گے؟ کیا رسول اللہ ﷺ کا یہ پیغام آپ نے نہیں سنا!
 الاہل من مستغفر فاغفرلہا
(ہے کوئی مغفرت چاہنے والا!جس کی میں مغفرت کروں)
 یاباغی الخیر اقبل ویاباغی الشر اقصر
(اے خیر کے طلبگار آگے بڑھ، اور اے برائی کے طلبگار پیچھے ہٹ)

موتی سمجھ کر شان کریمی نے چن لیے

دیکھتے ہی دیکھتے روز وشب کی گھڑیاں گزرگئیں، چاند اپنے سفر کی گیارہ منزلیں طے کر پھر وہیں آگیا، جہاں آج سے ایک سال قبل تھا، یعنی ماہِ رمضان آگیا۔ ہر کسی کی زبان پر یہ جملہ سناجاتا ہے کہ وقت کتنی تیزی سے گزرر ہا ہے کہ کچھ پتہ نہیں چلتا، برکت ختم ہوگئی سال مہینہ ، مہینہ ہفتہ اور ہفتہ چند گھڑیوں کی طرح گزرتا جاتا ہے۔ یہ شکوہ ہر ایک کی زبان پر ہے، عجب نہیں کہ خود آپ نے بھی وقت کی اس تیزروی کو محسوس کیا ہو اور کسی نہ کسی موقعہ پر اظہار شکایت کر بیٹھے ہوں۔
جی ہاں! یہ چند گھڑیاں ہی نہیں یہ سلسلۂ روز وشب یونہی ختم ہوتا ہے۔ صبح وشام ہوتی ہے اور زندگی یونہی تمام ہوجاتی ہے۔
قرآن کریم نے انسان کی اس غفلت کا تذکرہ بار بار کیا ہے انبیاء،اولیاء کی مقدس جماعت نے اس بوجھل نیند سے لوگوں کو جگایا ہے، اس سے پہلے کہ تاخیر ہو اور انسان کے پاس نہ زادِ راہ ہو نہ توشۂ عمل، وہ اٹھے اور ان اعمال کیلئے کروٹیں لے جس کا وہ اپنے رب وپروردگار سے وعدہ کر کے آیا ہے۔ غور فرمائیے قرآن کے اس خطاب وانداز میں کتنی شفقت ومحبت ہے، رب کریم کس طرح آپ سے مخاطب ہے اگر سینہ میں دردمند دل ہے، احساس ہے، تو آپ تڑپ اٹھیں اشکبار ہوجائیں۔
یٰٓاَیُّهَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِیْمِ(6)الَّذِیْ خَلَقَكَ فَسَوّٰكَ فَعَدَلَكَ(7) (سورہ انفطار)۔
ترجمہ:اے انسان! کس چیز نے تم کو اپنے محسن رب سے غفلت میں مبتلا کر دیا، جس نے تم کو بنایا، پھر تمہارے اعضاء درست کئے، تم کو اعتدال پر بنایا۔
آیت کریمہ کے تعلق سے شاہِ اولیاء حضرت فضیل بن عیاضؒ کا یہ جملہ سنتے ہو ئے چلئے، ’’اُن سے دریافت کیا گیاکہ اگراللہ تعالیٰ قیامت کے دن آپ کو اپنے سامنے کھڑا کریں اور یہی سوال کریں تو آپ کیا جواب دیں گے؟ فرمایا عرض کروںگا کہ آپ کی ستاری اور پردہ پوشی نے‘‘۔ہائے کیا بات ہے کہ اعتراف جرم بھی ہے اور رحمت وکرم کی امید وطلب بھی۔
(تفسیر قرطبی ۱۹؍۲۴۴،بحوالہ آسان تفسیر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی)
غفلت کتنی بھی گہری ہو، خطا ہی نہیں خطائوں کے سمندر میں انسان ڈوبا ہو، آلودہ ہو، دامن تار تار گریباں چاک ہو، مگر یہ ماہِ مبارک تین عشروں پر مشتمل روز وشب کی قیمتی گھڑیاں اسی لئے آتی ہیں کہ آلودۂ عصیان، لغزیدہ وترسیدہ، خطاکار واشکبارانسان جب اپنے رب کے سامنے اعتراف جرم کرتا ہے تو یہ پیکرِ عصیان، رحمت ومغفرت کا مورد ومستحق بن جاتا ہے۔ اور شانِ کریمی ’’عرقِ انفعال‘‘ ندامت کے ٹپکتے قطروں کو موتی سمجھ کر چن لیتی ہے۔ آئیے عفووکرم کے موسمِ بہار میں اسی دربار میں چلیں جہاں ہر خطا معاف اورہر لغزشِ پا ‘گل وگلزار بن جاتی ہے۔